پچھلے 50 سال سے ملکی سیاست ’’پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی’’ کیمپوں میں منقسم ہے مختلف اوقات میں پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی اتحاد بنتے، ٹوٹتے رہے۔ ایک دور میں جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی مخالف جماعت تصور کی جاتی تھی لیکن 80کے عشرے میں اس کی جگہ مسلم لیگ نے لے لی پھر90ء کے عشرے میں اس کی جگہ حاجی نواز کھوکھر کی رہائش گاہ پر جنم لینے والی مسلم لیگ (ن) نے لے لی۔ پچھلے 27،28 سال سے میاں نواز شریف ، اینٹی پیپلز پارٹی قوتوں کے لیڈر کے طور سیاسی منظر پر جلوہ افروز ہیں۔ اس عرصہ کے دوران در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی سازش نہ کرنے کا عہد کیا اور 2006ء میں لندن میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کر دئیے گئے لیکن اس کی دوتین شقوں کے سوا شاید ہی اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہوا ہو، دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نواز شریف اور آصف علی زرداری نے ایک دوسرے کے قریب ہونے کی کوشش کی اورجنرل (ر) پرویز مشرف کی ’’مارشلائی‘‘ حکومت سے جان چھڑانے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کیا لیکن ججوں کی بحالی کے ایشو پر دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات نے اس حد تک شدت اختیار کر لی کہ میاں نواز شریف نے لانگ مارچ کی قیادت کر کے ججوں کی بحالی کو ممکن بنا لیا آج میاں نواز شریف ’’نااہلی‘‘ کے بعد اسی عدلیہ سے ’’گلے شکوے‘‘ کر رہے ہیں جس کی بحالی کے لئے انہوں نے لانگ مارچ کیا تھا۔ ’’بے رحم سیاست‘‘ نے آج پھر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنی سوا چار سالہ حکومت میں آصف علی زرداری سے ’’رومانس‘‘ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس عرصے کے دوران ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کی گرفتاری کے واقعات نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ’’رومانس ‘‘ کو تقریباً ختم کر دیا اس کا آغاز اس وقت ہوا جب آصف علی زرداری کے فوج کے خلاف بیان کے بعد میاں نواز شریف نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں اگست 2014ء کے عمران خان کے’’مس ایڈونچر‘‘ کے وقت پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کا ساتھ دیا جو بڑی حد تک عمران خان کے عزائم کی ناکامی کا باعث بنا پیپلز پارٹی کی قیادت بار بار احسان جتلا کر میاں نواز شریف سے ’’رعائتیں‘‘ لیتی رہی ہے میاں نواز شریف کی ’’عنایات‘‘ کی بارشوں کا نتیجہ ہے کہ سید خورشید شاہ نے ’’فرینڈلی اپوزیشن لیڈر‘‘ کا کردار ادا کیا۔ میاں نواز شریف پچھلے دو سال کے دوران آصف علی زرداری سے ملاقات کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن آصف علی زردار ی میاں نواز شریف سے ملاقات سے گریز کرتے رہے لیکن جب میاں نواز شریف پر آفت پڑی تو آصف علی زرداری نے ’’ناراضی‘‘ کی انتہا کر دی انہوں نے باقاعدہ اعلان کر کے میاں نواز شریف کا فون تک نہ سننے کا اعلان کر دیا بلکہ ان کے خلاف ایک پوزیشن لے لی اور پھر میاں نواز شریف پر مسلسل گولہ باری کر کے نہ جانے ’’کس‘‘ کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آصف علی زرداری چوہدری نثار علی خان میں شروع سے نہیں بنتی چوہدری نثار علی خان پیپلز پارٹی کے ازلی دشمن تصور کئے جاتے ہیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ان کے پیپلز پارٹی سے تعلقات خوشگوار ہو گئے لیکن پیپلز پارٹی کے کرپشن کے دور میں انہوں نہ صرف اپنے آپ کو پیپلز پارٹی سے دور کر لیا بلکہ میاں نواز شریف کو آصف علی زرداری سے کچھ فاصلہ رکھنے کا مشورہ دیتے رہتے تھے چوہدری نثار علی خان کے وفاقی کابینہ کا حلف نہ اٹھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ان کے حکم پر ایف آئی اے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف تحقیقات شروع کرتی تو وزیر اعظم ہائوس سے تحقیقات روک دینے کا ٹیلی فون آجاتا تھا یہی وجہ ہے چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف سے ’’نالاں‘‘ رہے تاہم انہوں نے اس بات پر میاں نواز شریف سے گلہ تو کیا لیکن عوامی سطح پر اظہار نہیں کیا۔ تاہم اس وقت ملکی سیاست میں تین بڑی جماعتیں سرگرم عمل ہیں عام تاثر یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنے سیاسی مفادات کے حصول اور اپنے خلاف نئے کیسز کھلنے کے خوف کی وجہ سے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے اپنے تعلقات کار بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ممکن ہے انہیں اپنی اس سیاسی حکمت عملی میں کوئی کامیابی ملی ہو لیکن تاحال اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آصف علی زرداری کی ’’سرپرستی‘‘ کے کوئی واضح اشارے نہیں ملے میاں نواز شریف بھی برطانیہ میں کم و بیش ایک ماہ تک قیام کے بعد وطن واپس آگئے ہیں ان کی واپسی کے بعد ان کے ’’راہ فرار‘‘ کی قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں ان کی واپسی سے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے دونوں جماعتوں کی قیادت جو پچھلے کئی ماہ سے مسلسل میاں نواز شریف پر گولہ باری کر رہی تھی جب سے میاں نواز شریف نے اسلام آباد قدم رکھا ہے عمران خان اور آصف علی زرداری کی ’’گولہ باری‘‘ میں اضافہ ہو گیا ہے میاں نواز شریف جو عمران خان اور آصف علی زرداری کے بیانات کا کوئی جواب نہیں دیتے تھے انہوں نے بھی آصف علی زرداری کے حالیہ بیانات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ’’ آصف علی زرداری کسی کو خوش کرنے کے لئے مجھے گالیاں دے رہے ہیں‘‘ میاں نواز شریف کی تلخ نوائی کا پیپلز پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ’’ اب نواز شریف مشکل میں ہیں جمہوریت نہیں‘ میاں صاحب جمہوریت کو مشکل میں آنے سے بچائیں‘ نواز شریف اپنی مشکلات کا ملبہ جمہوریت پر نہ ڈالیں‘ بار بار کہا تھا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اب نواز شریف کو کسی صورت نہیں بچائیں گے۔ میاں نواز شریف وہ دن یاد کریں جب انہوں نے آصف علی زرداری سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا ۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس وقت نواز شریف نے کس کو خوش کرنے کے لئے ملاقات نہیں کی؟ نواز شریف صاحب ! یہ مکافات عمل ہے‘‘ یہ بات غیر معمولی نوعیت کی حامل ہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری نے گزشتہ ہفتے کے اواخر میں خاموشی سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں پیپلز پارٹی کی جانب سے ان کی اسلام آباد آمد کو خفیہ رکھا گیا تھا جب اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے ترجمان سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے معنی خیز جواب دیا کہ ’’آئندہ چند دنوں میں وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں اہم واقعات رونما ہونے کا امکان ہے لہٰذا آصف علی زرداری بھی اس دوران اسلام آباد میں موجود رہیں گے‘‘ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کی طرف سے پہلی بار وزیر خارجہ خواجہ آصف نے آصف علی زرداری سے رابطوں میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے میرے قریبی عزیز فاروق ایچ نائیک کو میرا کیس لڑنے سے روک دیا جس کے بعد انہوں نے آصف علی زرداری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ان کا فون سننے سے انکار کر دیا اسی طرح وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے بھی اپنے
طور کوشش کی ان کو لاہور بلوا کر آصف علی زرداری نے ملاقات نہیں کی آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ایک مشترکہ کاروباری دوست نے بھی نواز شریف ، آصف علی زرداری کی ملاقات کرانے کی کوشش کی لیکن آصف علی زرداری اس وقت اپنے خلاف مقدمات کھل جانے سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں ان سے کوئی نواز شریف سے ملاقات کی بات کرتا ہے تو ان کا موڈ خراب ہو جاتا ہے میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے جہاں مسلم لیگ مخالف عناصر میں مایوسی پھیل رہی ہے کیونکہ انہیں اپنا مضبوط سیاسی حریف میدان میں نظر آرہا ہے وہاں مسلم لیگی حلقوںمیں مسرت و خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ جو گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے کو سیاسی منظر واضح ہوتا نظر آرہا ہے میاں نواز شریف نے جہاں اسلام آباد میں دیگر مسلم لیگی رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں وہاں ان سے چوہدری نثار علی خان کی ملاقات کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ’’بہتر تعلقات کار‘‘ قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے مسلم لیگی قیادت کو رواں ہفتے اپنے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ کر نا ہو گا جس سے سیاسی منظر مزید واضح ہو جائے گا۔ چوہدری نثار علی خان نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ’’محاذ آرائی یا مفاہمت‘‘ میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کر یں اور پھر اس پر ڈٹ جائیں ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘ کی پالیسی نہیں چلے گی پیپلز پارٹی نے ’’بے اصولی ‘‘ کی سیاست کی انتہا کر دی ہے گزشتہ ہفتے پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستیں برقرار رکھنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا نئی حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا گیا لیکن اس وقت حکومت کو حیرت ہوئی جب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اس آئینی ترمیم کی مخالفت کر دی جس پر ایک روز پہلے اتفاق رائے کیا تھا بل کے مطابق قومی اسمبلی میں پنجاب کی 9 نشستیں کم ہوجائیں گی جن میں7 جنرل اور 2 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔ الیکشن ممکن نہیں ہو گادو بڑی جماعتوں کی مخالفت سے آئینی ترمیم کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہے ۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بل کی حمایت کر رہی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے شدید مخالفت کر دی ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر کسی جماعت کو ’’کسی اور جگہ‘‘ سے ہدایت آئی ہے کہ ’’گڑبڑ‘‘ کرو تو یہ طریقہ درست نہیں‘‘۔ اب دیکھنا یہ کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ’’ناکام رومانس‘‘
Nov 06, 2017