گورنمنٹ کی طرف سے پولیو ا ور خسرہ کی روک تھام کے لئے جو مہم چلائی گئی ہے اس کی جتنی بھی ہمت افزائی کی جائے کم ہے۔ یہ کاوش اگرچہ قابلِ تعریف ہے مگر جو قوم یا ادارے اپنی غلطیوں ا ور کوتاہیوں سے سبق نہ سیکھیں اور اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش نہ کریں وہ زمانے کے دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور انہیں عقلمند یا بہترین صلاحیتوں کا مالک نہیں کہا جا سکتا۔ یہ چند سطور میں نہایت نیک نیتی سے لکھ رہا ہوں صرف اس خیال سے کہ اس میں عوام کی بھلائی بھی ہے اور محکمۂ صحت کی کامیابی اور عزت و احترام کی ضمانت بھی۔ قلم اُٹھانے کی جرأت بھی اس لیے کی ہے کہ خسرہ اور پولیو ٹیم کی صلاحیتوں، خوبیوں اور خامیوں کو پرکھنے اورمشاہدہ کرنے کا مجھے بلاواسطہ موقع ملا ہے۔ پولیو کے قطرے پلانے اور خسرہ کے انجکشن لگانے والی ٹیم جو سکولوں میں آتی ہے وہ عام طور پر تین یا چار ا فراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں عورتیں اور مرد دونوں شامل ہوتے ہیں۔ عورتیں اکثر برقعوں میں لپٹی ہوتی ہیں جن کی پہچان تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔ محکمۂ صحت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی ناگہانی حادثہ کی صورت میں مثلاً الرجی یا انجکشن کے غیر معمولی ردعمل کا ذمہ دار کسی نہ کسی صورت سکول کی انتظامیہ کو ٹھہرایا جائے باوجود اس کے کہ وہ جانتے ہیں کہ سکول کی انتظامیہ یا اساتذہ میڈیکل ڈگری نہیں رکھتے۔ اساتذہ تعلیم کے ماہر ضرور ہوتے ہیں مگر طب کے نہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ محکمہ صحت کی ٹیم کے روپ میں کوئی دہشت گرد معصوم بچوں کونشانہ بنانے کی کوششکرے۔ان تمام امکانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس ٹیم کے ایک فرد کے شناختی کارڈ کا باریک بینی سے معائنہ کیا جائے ا ور مکمل اطمینان کے بعد انہیں سکول میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ مگر افسوس کہ اس ٹیم میں شامل خواتین نے پرنسپل کو اپنے شناختی کارڈ دکھانے سے انکار کر دیا حالانکہ پرنسپل خود مرد نہیں بلکہ عورت تھی۔ لڑکیوں کے سکول میں انجکشن لگاتے وقت انہوں نے لگاتار نقاب پہنے رکھے۔ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جاتا تو پرنسپل صاحبہ کس کو پکڑتیں…نہ شکل دکھائیاور نہ ہی شناختی کارڈ۔ ان انجکشن لگانے والی خواتین نے معصوم بچوں کو انسان سمجھ کرنہیں بلکہ بے جان چیز یا جانور سمجھ کے بڑی بے دردی سے انجکشن لگائے۔ بچوں کے ساتھ شفقت آمیز سلوک یا خوش اخلاقی تو بڑی دورکی بات ہے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ انہیں بنیادی انسانیت کیاصول بھی نہیں سکھلائے گئے۔ وہ اپنے کام کو فرض نہیں بلکہ گلے پڑی مصیبت سمجھ کرمجبوراً کر رہی تھیں۔ جب ان کے سپروائزر سے ان کی تعلیم و تربیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر میٹرک پاس تھیں جنہیں صرف ایک گھنٹے کی تربیت دی گئی تھی۔ ہو سکتا ہے ان میں کوئی ایک آدھ کوالیفائڈ نرس ہو مگر ہمیں کوئی ایسا ثبوت مہیا نہیںکیا گیا۔ جب ان کے انچارج سے پوچھا گیا کہ فیصل آباد میں ایک بچی کی موت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر خدانخواستہ کوئی الرجک ردِعمل ہو جائے تو وہ کیا کریں گے۔ میں ان کے سرسری اور بے نیازانہ جواب سن کر حیران رہ گیا ۔ ان کے خیال میں اگرلاکھوں میں سے کوئی ایک بچہ مر جائے تو کوئی ایسی خاص بات نہ تھی۔ میں نے ان سے پوچھاکہ کیا ان کے پاس میڈیکل ایمرجنسی کے لیے دوائیوں کا باکس ہے؟ پتہ چلا کہ انہیں دوائیوں کے نام سے بھی مکمل آشنائی نہ تھی۔ میں نے انہیں یہ دوائیاں دکھانے کو کہا مگر وہ بات گول کر گئے۔ اس عظیم ، لائقِ تحسین، انتہائی اہم اور ضروری مہم کے لئے میرا مشورہ ہے کہ:
-1 ویکسی نیشن لگانے والے تمام افراد باقاعدہ مناسب تربیت یافتہ ہوں۔ ـ-2 انہیں معصوم بچوں پر ’’جھپٹنے‘‘ سے پہلے شفقت آمیز سلوک، خوش اخلاقی اورحسنِ کارکردگی کا سبق دیا جائے۔ کیونکہ قرآن کا بھی حکم ہے ’’قولوللناسِ حُسنہ‘‘ ً-3انہیں ہدایت دی جائے کہ وہ جس سکول میں بھی جائیں انہیں اپنا شناختی کارڈ دکھائیں اور لیڈی پرنسپل کواپنے تمام کوائف کے ساتھ مکمل شناخت کروائیں۔ -4اپنی ٹریننگ کی سند ساتھ لے کر آئیں اور طلب کرنے پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سکول کی پرنسپل کو دکھائیں۔ -5ہر انہونی میڈیکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے نہ صرف ان کی ٹریننگ مکمل ہو بلکہ تمام دوائیاں بھی موجود ہیں۔ ان دوائیوں کی expiry date کی بھی ہر مہینے پڑتال کی جائے اور جن دوائیوںکی میعاد ختم ہو چکی ہو ان کی جگہ تازہ دوائیاں ڈاکٹرانچارج کی نگرانی میں رکھی جائیں۔ اگر ان ہدایات پر عمل کیاجائے تو نہ صرف ویسینیشن کا تمام عمل محفوظ ہو جائے گا بلکہ محکمۂ صحت کی کوششوں، محنت، وقار اور شہرت کو بھی چار چاند لگ جائیں گے اور عوام ان پراعتمادکرتے ہوئے ان کے عملے کو خوش آمدید کہیں گے۔