پی ٹی وی پاکستانی ثقافت کو فروغ دے رھا ہے

سیف اللہ سپرا
پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز کے جنرل منیجر حمیدقاضی کا شمار پاکستان ٹیلی ویژن کے سینئر ترین پروگرام پروڈیوسر ز میں ہوتا ہے ۔ یوں تو انہوں نے ٹی وی پروگرامنگ کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور ڈرامہ ، تفریحی پروگرامز او ر طویل و مختصر مدت کے خصوصی پروگرام پی ٹی وی پر پیش کئے ، مگر دستاویزی فلمسازی اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے تفریحی اورمعلوماتی پروگرامز کی تیاری میںان کو کمال ملکہ حاصل ہے ۔ انہوںنے پاکستان کی یوتھ کے لئے بیش بہا پروگرام کئے جبکہ ان کی کئی دستاویزی فلموں کو عالمی سطح پر پذیرائی بھی ملی ۔ حمید قاضی ان دنوں لاہو رمرکز کے انتظامی امور کے سربراہ ہیں ۔ بطور جنرل مینجر نہ صر ف انہوںنے اس اہم مرکز کے انتظامی اور مالی معاملات بہتر کئے بلکہ پروگرامنگ پر بھی خصوصی توجہ دی جسکے باعث لاہو رمزکر اٹھارہ قومی و علاقائی پروگرام کی نشریات کے ساتھ قومی نشریات میں سب سے زیادہ حصہ ڈال رہاہے ۔ گزشتہ دنوں نوائے وقت نے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا اور ان سے اس اہم قومی ادارے کے ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے میں اہم معلومات حاصل کیں جو قارئین کی پیش نظر ہے۔!
س: سب سے پہلے ہمیں اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتائیں ، تعلیم کہاں سے حاصل کی اور اس شعبہ میں کیسے آئے ۔
ٌج :میں چھ اپریل 1960 میں اٹک کی تحصیل پنڈی گھیپ میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم پنڈی گھیپ سے حاصل کی اور گریجوایشن گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے کی ۔ بعد میں پنجا ب یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹکل سائنس اور تاریخ میں ماسٹرز کیا۔1980 میںپاکستان ٹیلی ویژن کے ایک اہم شعبہ فلم سکیشن سے اپنے کیئریر کا آغاز کیا ۔ اس سکیشن میں دنیا بھر سے بہترین ٹی وی پروگرامز اور فلمز آتی تھیں ۔ مجھے یہاں براڈکاسٹنگ دنیا کے بہترین اور ممتاز ماہرین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ۔ ہم لوگ عالمی معیاری فلموں کی ڈبنگ اور ان کی ایڈیٹنگ کرتے جو پی ٹی وی پر آن ائیر جاتی ، میری دلچسپی دیکھ کر ادارے نے میری ڈیوٹی دستاویزی فلموں کی اردو ڈبنگ پر لگائی اور میں نے سینکٹروں کی تعداد میں نیشنل جیو گرافک کے پروگرامز کی ری ایڈیٹنگ اور ڈبنگ کر کے پاکستانی ناظرین تک پہنچایا۔
س: آپ ڈرامہ نگاری اور پروڈکشن کی طرف کب آئے ۔
ج: 1992 ء میں ادارے نے مجھے بطور پروڈیوسر خدمات سر انجام دینے کی اجازت دی اور میں نے باقائدہ اپنے تخلیق کردہ آئیڈیاز پر کام شروع کیا۔ دستاویزی فلم سازی کا مجھے جنون کی حدتک شوق تھا یہی وجہ ہے کہ میں نے اس شعبے میں بہت کام کیا۔ اسلام آباد پھولوں کا شہر ، غریب الدیار اور اس جیسی میری کئی دستاویزی فلمیں آج بھی پی ٹی وی اکیڈمی میںنئے آنے والے پروڈیوسرز کو تربیت کیلئے دکھائی جاتی ہیں۔ 25 منٹ کی دستاویزی فلم Homeless کو تو دیگر زبانوں میں بھی ڈب کیا گیا۔ بطور پروڈیوسر میں نے نوجوان نسل کو ہمیشہ فوکس کیا۔ 26 قسطوں پر محیط میرا پروگرام یوتھ ایڈونچر آئیڈیا سے لیکر تخلیق تک میری کوشش تھی اور بے حد سراہا گیا جس میں نوجوانوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات اور تعلیم بھی فراہم کی گئی۔بلکہ میں یہ فخر سے کہہ سکتاہوں کہپی ٹی وی پر میں نے نہ صرف نوجوانوں کے لئے نت نئے ایڈوینچرس پروگرام متعارف کرائے بلکہ پی ٹی وی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانی کی تہہ میں عکاسی کا تجربہ کیا۔۔ اور تین دہائیاں پہلے انڈر واٹر شوٹنگ کی۔2010میں نوجوانوں کے لئے سمر کیمپ کے نام سے پروگرام کیا۔
س:پی ٹی وی کا ایک سنہر ا دور تھا جب اس کے پروگراموں کی دھوم سرحد پار بھی سنائی دیتی تھی ااس دور کو موجودہ دور سے کمپیئرکریں تو کہاں خلا دیکھتے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
ج:اس میں کوئی شک نہیں پی ٹی وی نے الیکٹرانک میڈیا میں بہت ٹرینڈ سیٹ کئے ہیں۔ ا سوقت لوگ کام سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے۔ایک پروسیس سے گزر کر اوپر آتے تھے اور ہر شعبے میں مہارت حاصل کرتے تھے۔ آج کا پروڈیوسر مجھے لگتا ہے کہ کچھ جلدی میں ہے ۔ وہ یک دم سب کچھ سیکھنا اور کرنا چاہتا ہے ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔
س:ٹی وی سکرین پر ان دنوں کیسا کام ہو رہا ہے ۔
آج بھی بہت سے پروڈیوسر بہت اچھا کام کر رہے ہیں خصوصا پی ٹی وی کے پروڈیوسر آج بھی پر عزم ہیں۔ اور کہیں اگر کوئی کمی رہ جاتی ہے تو اس میں صرف پروڈیوسر ہی ذمہ دار نہیں ۔ ہمیںکہیں ٹیکنالوجی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ کہیں پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ہے ، کہیں وسائل کی قلت آڑے آ جاتی ہے تو کہیں دیگر مسائل مگر ان تمام مشکلات کے باوجوداگر آپ لاہور مرکز کی پروگرامنگ کا جائزہ لیں تو میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ قومی نشریات میں سب سے زیادہ حصہ پی ٹی وی لاہور سنٹر کا ہے۔ پروڈیوسروں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے ڈراموں کا تسلسل ناگزیر ہے جسکے لئے ضروری وسائل درکار ہوتے ہیں۔
س: کیا پی ٹی وی خود کو مقابلے اور مسابقت کی دوڑ میں شامل کرتا ہے؟
ج:دیکھیں یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن مختصرا اگر کہا جائے تو پی ٹی وی ایک قومی چینل ہونے کے ناطے تفریح کے ساتھ ساتھ میڈیا کی بنیادی ذمہ داریاںجن میں تعلیم اور تربیت کے بھی شامل ہے کو بھی مدنظر رکھتا ہے ۔ اگر آپ دنیا کے پہلے ریڈیو پروگرام رورل لائن آف ایجوکیشن کو سنیں جو 1921میں لکھا گیا یا1928 میںسب سے پہلے ٹی وی ڈرامے دی کوئینز مسیج کا جایزہ لیں تو تعلیم و آگہی کا فروغ پہلے دن سے ہی میڈیا کابنیادی اور نمایاںپہلو رہا ہے ۔گویا کسی بھی نشریاتی ادارے کا سب سے بڑا مقصد معاشرے کی ذہنی آبیاری ، قومی ثقافت کی ترجمانی ،نظریاتی سرحدوں کا تحفظ اور معاشرتی اقدار کا فروغ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر مقابلے و مسابقت کا تعین ان باتوں پر ہوتو پی ٹی وی آج بھی سب سے نمایا ں نظر آتا ہے۔آپ ہر دور کے پروگرام اٹھا کر دیکھ لیں۔ابتدائی دور میں تعلیم بالغاں، خدا کی بستی جیسے لازوال شاہکار دیکھیں۔ اسکے بعد کا دور اٹھا لیں ان کہی، تنہایاں، آنگن ٹیڑھا، جانگلوس، اس کے بعد کے دور کا جائزہ لیں۔سنہرے دن، دھواں، انگار وادی، ایلفا برائو چارلی یہ سب پروگرام اس لئے آج بھی زبان زد عام ہیں کہ انہوں نے ناظرین کے ذہنوں پر گہرے معاشرتی نقوش چھوڑیں ہیں ۔ پرائیویٹ چینلز کے کتنے ڈرامے آج عوام کو یاد ہیں۔ ہمارے ڈرامے آج بھی حقیقی معاشرتی پہلوئوں کا عکاس ہیں۔پی ٹی وی بے کار، بے تکے اوربے ہنگم ڈراموں کے بجائے ایسے پروگراموں کو ترجیح دیتا ہے جو سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی کردار سازی اور معاشرتی روایات اور اقدار پر مبنی ہوں ہم کسی ایسی دوڑ میں شامل نہیں جو ہمیں اپنے بنیادی مقاصد سے دور کردے۔
س :پروڈکشن کے شعبے میں نئے آنے والے پروڈیوسرز کوکیا پیغام دیں گے؟
ج: سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ ہر چیلنج میں ایک موقع چھپا ہوتا ہے اسکو تلاش کریں۔ یکسانیت سے نکل کر اداکاری ڈائریکشن اور پروڈکشن میں نت نئے تجربے کریں۔ کام کو بوجھ سمجھ کر نہیں شوق سے کریں اگر اپ کا شوق جنون بن جائے تو آپ کو بام عروج تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
س:آپ ان دنوں انتظامی امور کے سربراہ بھی ہیں ، پروڈیوسر سے جنرل مینیجر تک کا سفر کیسا رہا۔
ج: یقین کیجیے بہت مشکل۔۔۔ لیکن چونکہ میری فطرت ہے کہ میں مشکل کام کو چیلنج سمجھتا ہوں کہ میں بطور جنرل مینیجر پی ٹی وی لاہور آیا تو ادارہ مالی بحران ، ادائیگیوں میں تاخیر اور کارکردگی میں بہتری جیسے چیلنجز کا شکار تھا، میں ان چیلنجز سے کس حد تک نبرآزما ہوا ہوں اس کے بارے میں خود سے تو کوئی دعوی نہیں کروں گا مگر آج پی ٹی وی لاہور مرکز جو سولہ کروڑ کی ادائیگیوں میں تاخیر کا شکار تھا اس مشکل سے باہر آ چکا ہے۔ غیر ضروری اخراجات ختم کئے جا رہے ہیں اور اس وقت پی ٹی وی لاہورمرکز سے سب سے زیادہ اٹھارہ پروگرام قومی سطح کی نشریات میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ بطور جنرل مینیجر میرا کام پروڈیوسرز کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے بروئے کار لا سکیں ، اور یہ میں کر رہا ہوں۔
س: ملک بھر میں جو سیاسی تبدیلی کی لہر آئی ہے اس کے اثرات کیا پاکستان ٹیلیویژن پر بھی آئے ہیں؟
ج: جی ماضی میں پی ٹی وی میں سیاسی مداخلت اور بے جا عملداری بہت بڑا مسئلہ رہی ہے مگر یہ سہرا ء اس نئی حکومت کو جاتا ہے کہ پی ٹی وی میں اب کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہے۔ نیوز اینڈ کرنٹ افیئر کے حوالے سے بہتری آپ کو نظر بھی آ رہی ہو گی ، اب اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی کوریج دی جاتی ہے جس کا پہلے تصور ہی نہ تھا ، اسی طرح پروگرامنگ میں بھی ہمیں مکمل خود مختاری حاصل ہے۔
س: پی ٹی وی کے ماضی اور حال کے تناظر میں اس کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
ج:مجھے اس میں ایک رتی بھر بھی شک نہیں کہ پی ٹی وی کو دیگر چینلز کے مقابلے میں جو ممتاز مقام حاصل ہے وہ یہ قائم رکھے گا اور بطور قومی ادارے کے ملک و قوم کا معاشرتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا جو اس نے بیڑہ اٹھایا ہے یہ کام آئندہ بھی احسن طریقے سے کرتا رہے گا۔ پی ٹی وی صرف ایک ٹیلوئژن چینل ہی نہیں بلکہ ایک قومی ادارہ ہے جو عوام کو معلومات کی فراہمی، ذہنی آبیاری اور صحت مند تفریح فراہم کرنے کی بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ملک کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ اور معاشرتی روایات اور قومی ثقافت کا آئینہ دار بھی ہے۔

ای پیپر دی نیشن