مولانا کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن پر بھارت سرکار نے فوری ایکشن کیااور جموں کشمیر،لداخ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا ایک ایسا نقشہ شائع کردیا جس نے یو این او کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ، پاکستان کو لانگ مارچ کی الجھنوں کا شکار بنا دیا گیا تھا، اس لیے یہاں سے صرف ہمارے فارن آفس کی آواز سنائی دی کہ ہم مودی کے جاری کردہ نقشے کو نہیں مانتے مگر وہ جو لاکھوں کا مجمع اسلام آباد کے پشاور موڑ پر پڑائو ڈالے بیٹھا ہے وہ ٹس سے مس نہیں ہوا، اس نے مودی کے نقشے کو رد کرنے کی زحمت نہیں کی، یہ لوگ چوبیس گھنٹے نعرے لگاتے ہیں ۔کنٹینر سے ہر وقت تقریریں شعلے اگلتی ہیں مگر ان میں سے کسی کو احساس تک نہیں کہ نریندر مودی نے کس ڈھٹائی سے کشمیر کو ہڑپ کر لیا،چین بھی لداخ کے نقشے کی وجہ سے تڑپتا رہ گیا مگر وہ مولانا آٹھ برس سے کشمیر کمیٹی سے چمٹے رہے، کیا مجال کہ غلطی سے بھی ان کی زبان سے کشمیر کے لئے کوئی ایک لفظ تک نکلا ہو۔
کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کے طور پر جو نقصان انہوںنے کشمیر کو پہنچایا۔ وہ تو پہنچایا اور جو کسر رہ گئی تھی، اسے آج پورا کر رہے ہیں۔ پچھلے تین ماہ سے کشمیر ایک وسیع جیل خانے میں بدل دیا گیا ہے۔ ہر گلی ، ہر سڑک اور ہر چوک میں بھارتی فوج سنگینیں تانے کھڑی ہے۔ خاردار تاروں کا جال بچھا ہوا ہے۔ کرفیو نافذ ہے۔ دفعہ ایک سو چوالیس کا راج ہے۔ کسی شخص کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں، لینڈ لائن بند،موبائل فون بند، انٹر نیٹ بند، وائیفائی بند تاکہ اندر کی خبر باہر نہ جا سکے اور دنیا کو اسی لاکھ کشمیریوں کی آخری ہچکیاں بھی سنائی نہ دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے ایک ایک فرد کو کشمیریوںکے ساتھ کھڑے نظر آنا چاہئے تھا۔ پاکستان کا وزیر اعظم جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایٹمی جنگ کے خطرات واضح کررہا تھا، اسوقت مولانا نے جو دھرنا دیا وہ پاکستان کے وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کیلئے نہیں، کشمیریوں کی شہہ رگ سے بھارت کو آخری قطرہ خون نچوڑنے کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ یہی قبائلی لشکر جس نے اسلام ا ٓباد پر چڑھائی کی ہے، اسی لشکر نے اڑتالیس میں کشمیر پر بھارتی فوجی قبضے کو چیلنج کیا تھا اور قومی جہاد کے ذریعے آزاد کشمیر کو بھارتی فوج کے چنگل سے چھڑایا تھا مگر آج جب اس قبائلی لشکر کی کشمیریوں کو سخت ضرورت تھی، تب انہیں سیاست کی نذر کر دیا گیا۔ کشمیری بے چارے بھارتی درندگی اور قہر کے جہنم میں سڑتے رہیں،جلتے بھنتے رہیں۔ مولانا کو اس سے کیا غرض۔
کشمیری دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ مگر پشاور موڑ پر حلوے کی دیگیں چڑھ رہی ہیں، کشمیری بچے دودھ کے لئے بلک رہے ہیں مگر پشاور موڑ پر بڑے مزے سے چائے کی چسکیاں لی جا رہی ہیں۔ کشمیریوں کے تن کے کپڑے تار تار کئے جا رہے ہیں اور مولانا کروڑوں کی مالیت کے کنٹینر میں محو خواب رہتے ہیں، کشمیریوں کو دوائی نہیں ملتی۔ ان کے اسکول بند ہیں، کالج بند ہیں یونیورسٹیاں بند ہیں، اخبارات بند ہیں، ٹی وی بند ہیں مگر مولانا کی بلا سے ۔انہیں فکر ہے تو اسلام ا ٓباد کے اقتدار کی۔ دنیا کشمیریوں کا ساتھ چھوڑ رہی ہے مگر مولانا اپوزیشن کی حمائت کے حصول میں کامیاب ہیں۔ پشاور موڑ پر جس کسی نے ایک بپھرے ہوئے مجمعے کے سامنے تقریر کی تو صرف وزیر اعظم کے استعفے کی مگر کسی نے بھارتی وزیر اعظم سے استعفیٰ نہیں مانگا۔ پشاور موڑ پر پاک فوج کو تنقید کانشانہ بنایا گیا مگر کشمیریوں کو سنگینوں کا نشانہ بنانے والی بھارتی فوج پر کسی نے تنقید کی جرأت نہیں کی۔ یہ کیسے ہو گیا کہ سرحد پارا ور سرحد کے اس طرف کشمیریوں کے بارے میں ایجنڈہ ایک ہو گیا۔میں خود کسی پر الزام تراشی کے حق میں نہیں ہوںمگر جب دھرنے سے سارا فائدہ مودی اٹھا رہا ہو تو الزام تراشی کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔ حقیقت خود بولتی ہے۔ کسی کو شک نہیں رہا کہ لانگ مارچ حکومت پاکستان کے مخالف نہیں ،مظلولم کشمیریوں کے خلاف ہے جنہیں آج ہماری حمائت کی سخت ضرورت تھی، جو ہماری زبان سے ایک حرف تسلی سننا چاہتے تھے۔
بھارت نے پاکستان میںانتشار برپا کرنے والوں کی مدد سے خوب فائدہ ا ٹھایا اور ستائیس اکتوبر کو سردار پٹیل کے جنم دن اپنے پانچ اگست کے حکم پر عمل درا ٓمد کروا دیا، کشمیر کے نئے نقشے شائع ہو گئے۔ ان میں آزاد کشمیرا ور گلگت بلتستان کو متنازعہ دکھایا گیا ہے جبکہ جموں، کشمیر اور لداخ کو بھارت کا اٹوٹ انگ ظاہر کیا گیا ہے۔ کیا بھارت کے اس مقصد کوکامیاب بنانا ہی لانگ مارچ کا اصل مقصد تھا، یہ توپورا ہو گیا۔ اب کیا پتہ کہ آستین میں اور کتنے سانپ چھپا رکھے ہیں۔ اور وہ کہاں کہاں ڈنگ ماریں گے۔
لانگ مارچ نے کشمیر کے مسئلے کو دفن کرنے میں اہم کردار دا کیا ہے۔ پاکستان کی وہ کوششیں جو کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے کی جا رہی تھیں۔ ماند پڑ گئیں جب حکومت کو اس کی اپنی پڑ جائے توو ہ کشمیریوں کی کیا مدد کرے۔ کیسے کرے ،لانگ مارچ سے قبل پاکستان انتہائی گرم جوشی اور جذبے سے کشمیر کو سلامتی کونسل تک لے گیا۔ ہر جمعہ کو کشمیر کا احتجاجی دن منایا گیا۔ دنیا بھر میں بھارتی سفارت خانوں کے سامنے جلوس نکالے گئے۔عالمی اداروں کو کشمیریوں کے حق میں میمو رنڈم پیش کئے گئے۔ امریکی خارجہ کمیٹی کی انسانی حقوق کے ارکان نے بھارت پر اعتراضات لگائے کہ وہ کشمیریوں پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑ رہا ہے ا ور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو مجروح کیا جا رہا ہے ۔جرمن چانسلر انجلا مرکل نے بھارت کے دورے میں کہا کہ کشمیر میںانسانی حقوق کی حالت بہتر بنائی جائے ۔ وزیر اعظم عمران خا ن نے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کے سفیر اور وکیل بنیں گے اور ان کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔ ا س مقصد کے لئے عمران خان نیو یارک گئے۔ چین گئے ۔ ریاض گئے ، تہران گئے مگر اب ان کے سامنے لانگ مارچ کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ وہ دن رات مولانا کے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں ہیں اور یوںمولانا کامیاب ہو گئے ہیں کہ وزیر اعظم کو کشمیر کے لئے سرگرم کردار ادا کرنے سے روک دیا جائے جبکہ بھارتی وزیر اعظم تھائی لینڈ جیسے ملک کا چھ چھ روزہ دورہ کرنے کے لئے آزاد ہیں ۔
مولانا کے پاس اول تو احتجاج کا کوئی ایجنڈہ ہی نہیں اور اگر انہوں نے ہٹ دھرمی سے ایک ایجنڈہ گھڑ ہی لیا ہے تو اس کی تکمیل کے لئے ان کی ٹائمنگ پاکستان اور کشمیریوں کے لئے انتہائی ضرر رساں ہے۔ کشمیری تو بالکل بھارتی فوج کے بوٹوں تلے کچلے جا رہے ہیں۔ مولانا اور ان کے حواری ان بے چاروں کی کوئی بات نہیں کرتے ، انہیں صرف اپنی سیاست اور انا سے غرض ہے جس کے لئے انہوںنے کشمیر جیسے مقدس مشن کو بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
مولانا کے بھارتی رشتوں کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہیں۔ پاکستان سے پہلے ہندوستان میں کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں تھیں ۔ جماعت اسلامی ہند بھی تھی۔ جماعت اہلحدیث ہند بھی تھی اور آل ا نڈیا مسلم لیگ بھی۔ ان سب نے بھارتی جماعتوں سے ناطہ توڑ لیا مگر جمعیت علمائے اسلام نے جمعیت علمائے ہند سے ناطہ کیوں نہیں توڑا۔ علامہ اقبال کے لئے بوالعجبی کی بات یہ تھی کہ حسین احمد مدنی کا تعلق دیو بند سے تھا مگر ہمارے لئے بوالعجبی یہ ہے کہ ہمیں سیاسی میراث میں ایک مولانا مل گئے۔ جنہوںنے کشمیر کامسئلہ خاک اور خاکستر میں ملا دیا۔ کشمیر کا جب کوئی نیا نوحہ لکھا جائے گا تو اس کا سر عنوان لانگ مارچ ہو گا۔