حکومت اور اپوزیشن میں محاز آرائی 

Nov 06, 2020

حکمران جماعت اور اپوزیشن میں شامل سیاسی پارٹیوں میں سیاسی محاز آرائی اور کشیدگی شدید تر ہوتی جارہی ہے ,نتیجہ میں سیاسی و جمہوری نظام غیر مستحکم ہورہا ہے اپوزیشن جماعتوں نے اے پی سی کے اجلاس میں حکومت کے خلاف ایک منظم تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے جمہوری نظا م میںحکومت اپوزیشن کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات استوار ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوری روایات پختہ اور مضبوط نہیں ہوئیں ہمارے ملک میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سیاسی کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میںجمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوئے۔ سیاست شخصیات اور خاندانوں کے گردگھومتی ہے۔2018؁ء کے انتخابات میں حکمران جماعت وفاق اور پنجاب میں اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ پی۔ٹی۔آئی نے اتحادی جماعتوں سے الحاق کر کے وفاق اورپنجاب میں حکومتیں قائم کیں۔ انتخابات اور حکومتوں کے قیام کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھندلی کے خلاف مہم چلائی۔ مولانا فضل الرحمن اس مہم کے خالق تھے جنہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو مشورہ دیاکہ وہ اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہو کر سڑکو پر آجائیں اپوزیشن جماعتیں ان کی مہم میں شامل ہو گئیں۔ مگر ان جماعتوں کے لیڈروں نے مستعفیٰ ہونے سے انکار کر دیا۔ تاہم اپوزیشن کی جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ناجائز حکومت قرار دیا۔ اور حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دی۔وزیر اعظم عمران خان ـ"نیا پاکستان" کا نعرہ بلند کر کے اقتدار میں آئے اور یہ اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو میگا کرپشن سے پاک کرینگے اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیاں گذشتہ دس سال سے اقتدار میں تھیں۔ ان جماعتوں کے لیڈروں کے خلاف نیب نے تحقیقات کر کے کرپشن کے مقدمات قائم کئے۔ ان کی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ وزیر اعظم عمران خان  نے ان لیڈروں کو چوروں اور ڈاکوئوں کے خطابات سے نوازا اور ان پر تنقید کے تیر برسائے۔ اس کے نتیجہ میں اپوزیشن
 جماعتوں نے جواباً وزیر اعظم کواس کاروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے۔ اور وزیر اعظم عمران خان کو ریاستی ادارے اقتدار میں لائے ہیں، جو اپوزیشن جماعتوںکے مخالف تھے۔ انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت نہیں تھی اس لیے پی ٹی آئی انتخابات دھاندلیوں میں ملوث نہیں تھی اگر اس کا بس چلتا تو  وہ زیادہ اکثریت حاصل کرکے اقتدار میں آتی مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ ترین قیادت کا موقف ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اُن کا ٹارگٹ  نہیں ہیں بلکہ ان کا ٹارگٹ ریاستی ادارے ہیں جو ناجائز طور پر وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار میں لائے ہیں ۔ جس کی وجہ سے آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور ان کی تحریک ان اداروں کے خلاف ہے ان کا موقف قومی مفاد کے منافی ہے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت بلاجواز ان اداروں کے سربراہوں پر تنقید کر رہی ہے حالانکہ موجود ہ دور میں یہ ادارے سیاست کے الگ تھلگ ہوکر قومی خدمات انجام دے رہے ہیں اور قومی سلامتی کے محافظ بھی ہیں۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ موجودہ حالات میں خاموش نہیں رہ سکتے کوئی ان کو چپ کرانے کی کوشش بھی نہ کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا مقابلہ سلکٹیڈ عمران خان سے نہیں ہے عمران خان کٹھ پتلی ہے انہوں یہ بھی کہا کہ وہ جب چاروں طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ بہت غمگین ہوجاتے ہیں۔ وہ2017؁ء سے صدائیں بلند کر رہے ہیں کہ  "ووٹ کو عزت دو" وہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ وہ ہمہ مقتدر حکمران تھے وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں تھے۔ اس نعرہ سے وہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ منتخب وزیراعظم ملک کا اصل حکمران ہوتا ہے وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا بلکہ تمام ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ یہی اُن کا انداز حکمرانی تھا۔مسلم لیگ(ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میان نواز شریف کے خاندان پر اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے وہ کیا سے کیا ہو گئے اب ان کا شمار پاکستان کے چوٹی کے دولت مندوں خاندانوں میںہوتا ہے۔سابق وزیر اعظم دو بار پنجاب کے وزیر اعظم اور تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ اُنہوں نے مسلم لیگ(ن) قائم کی۔ اقتدار کی بدولت بیوریو کریسی میں ان کا اثرورسوخ بڑھا۔ ان کی پارٹی میں شامل لیڈر اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلیم لیگ(ن) کے لیڈر اور کارکن ان کے احکام بلا چوں چراں بجا لاتے ہیں اب وہ اپوزیشن کی تحریک میں صف اول کے لیڈر ہیں تحریک بھی زوروں پر ہے۔اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف اجتجاجی تحریک چلانے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف جسلے منعقد کرنے کے لیے منظم ہو رہی ہیں وہ عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کا عزم رکھتی  ہیں اس کے نتیجہ میں سیاسی کشیدگی اور افراتفری میں اضافہ ہو گا۔ حکومت کے ترجما ن بھی اپوزیشن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں جو اپوزیشن کے لیڈروں پر سخت تنقید کر رہے ہیں اپوزیشن جماعتیں حکومت کو احتجاجی تحریک کے ذریعہ ختم کرنا چاہتی ہیں حکومت اُن کا مقابلے کے لیے تیار ہے تاہم حکومت  حسب وعدہ عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ عوام کی مشکلات اور مسائل بڑھ رہے ہیں عوام حکومت اور اپوزیشن کے سامنے بے بس ہیں ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور یوں جمہوری نظام کمزور ہو رہا ہے۔حال ہی میں اپوزیشن جماعتوں نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے اپوزیشن کی جماعتوں نے متفقہ طور پر مولانا فضل الرحمان کو پی ڈی ایم کا صدر منتخب کر لیا ہے مسلم لیگ(ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے لندن سے مولانا صاحب کا نام تجویز کیا ہے جس کی تائید پی پی پی کے چئیر مین بلاول بھٹو نے کی۔ اور وہ صدر منتخب ہو گئے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت اس عہدے کی متمنی نہیں تھی اس جماعت 
کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ پی ڈی ایم کی جمہوری جدوجہد آئین کی بالا دستی۔ قانون کی حکمرانی اور عوام کے معاشی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے حق تو یہ ہے کہ تحریک سے یہ مقاصد حاصل نہیںہوتے۔ بلکہ امن و آشتی سے یہ نظام مضبوط ہوتا ہے تحریک شروع ہوچکی ہے اپوزیشن کی طرف جسلوں کا اعلان بھی ہوچکا ہے دوسری طرف حکومت اس تحریک کوناکام بنانے کا پختہ عزم رکھتی ہے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے اس وقت پاکستان کو امن کی ضرورت ہے۔ سیاسی محاز آرائی ملک کے مفاد میں نہیں ہے سیاسی محاز آرائی سے سیاسی اور جمہوری ادارے مزید کمزور ہوجائنگے۔ اور عوام کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو جاگا۔

مزیدخبریں