آج انسانیت مجموعی طور پر انتشار کا شکار ہے ۔تمام تر ترقی ‘خوشحالی تعلیم اور علم کے باوجود ساڑھے چھ ارب انسان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اس کرہ ارض کو نہ ختم ہونے والے فتنوں میں مبتلا کردینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔کوئی ایسا خطہ نہیں جو جنگ و جدل سے پاک ہو۔ جہاں انسان انسان کو کاٹ نہ رہا ہو۔ جہاں آدم آدم کو لوٹ نہ رہا ہو امیر غریب کو کھائے جارہا ہے۔ باوسیلہ دنیا بے وسیلہ بستیوں کو اجاڑ رہی ہے۔تقابل کا فلسفہ اپنے تمام تر منفی معنوں کے ساتھ نسل انسانی کی تباہ کاریوں میں کارفرما ہے۔ کچھ معلوم نہیں کب زیر زمین چھپے ہوئے ایٹم بم‘ سمندر میں تیرتی ہوئی نیو کلیائی آب دوزیں ‘تابکاری مواد اٹھائے فضاء میں قلانچیں بھرتے طیارے اور خلا میں ہچکولے لیتے مصنوعی سیارے اچانک کسی مہم جو ذہن کی چھوٹی سی غلطی سے اس قافلہ انسانیت کو آگ لگا دیں اور احسن تقویم کے فارمولے پر پیدا کردہ انسان اپنی ہی بدتد بیری اور بدنیتی کے سبب اپنے گھر کو جلا کر خاکستر کردے۔ انسانیت کو بچانے کی آج جس قدر ضرورت ہے۔ شاہد اس سے پہلے کبھی بھی نہ تھی۔ مختلف یورپی دانشور اور انسانی حقوق کے چیمپئن خود ساختہ تھیوری اور محض انسانی ذہن سے پھوٹنے والی احتیاطوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر انسانیت کے قافلے کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن تمام تر خلوص نیت کے باوجود مغربی انسان دوست ادارے اور حلقے محض اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
اُلجھی ہوئی ڈور کا سرا ڈھونڈنے کے لئے انہیں ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف سچ کو تلاش کرنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انہوں نے مذہب ‘زبان ‘علاقے ‘رنگ نسل‘ Status اور دنیاوی طبقاتی تقسیم کی عینک اتار کر حق کی تلاش کو نکلیں گے تو پھر انسانیت کے عظیم محسن ،دنیا جہاں کے لئے رحمت للعالمین اور صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے غم گسار آخری پیغمبر خاتم النبین ؐ کی تعلیمات تک ضرور پہنچ جائیں گے۔اگر ہم ماہ ربیع الاول میں کوئی ایسی کتاب ترتیب دے سکیں ۔ کوئی ایسی قلم بنا سکیں جس میں رسول پاک ؐ کی تعلیمات کا بھرپور تاثر ملتا ہو اور وہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو دکھائی جائیں تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جو ذہن گستاخی پر اتر آئے ہیں وہی ذہن آپ ؐ کے حق میں اس طرح سرنگوں ہوجائیں گے جس طرح حضرت عمرؓ تلوار حمائل کئے درنبوت پر جھک گئے تھے۔ قافلہ انسانیت کو درپیش جان لیوا حادثوں سے بچانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اسوء رسولؐ پر عمل کریں اور غیر مسلموں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے بجائے یا ان سے مرعوب ہونے اور دور ہونے کے بجائے انہیں تعلیمات نبوی سادہ اور آسان سے لفظوں میں سمجھا سکیں۔ دنیا میں مختلف شخصیات علم و کمال‘دولت و جمال اور قوت واقتدار لے کر آتی رہی ہیں مگر ہم حضور انورؐ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو ہماری جناب رسول اللہؐ سے محبت و عقیدت اور ہمارا ان کے ساتھ رشتہ ایمان میں بندھا ہونا ہے تو دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جو آپ ؐ نے انسانیت کو عطا کیا ہے وہ آپؐ سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہیں دیا۔دنیا کی دوسری شخصیات کو دیکھیں تو سکندر‘رستم و دیگر نامور کمانڈرز جاہ و جلال دکھا کر چلے گئے‘ کارل مارکس اورلینن جیسے لوگ نظریاتی نعرے دے کر جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔غرض کوئی علمی موشگافیاں دکھا کر چلا گیا کسی نے غلط نظریات میں الجھا کر اسے کمال تصور کیا۔ کسی نے انسانیت کو خاک وخون میں تڑپانے سے لطف حاصل کیا مگر حضورؐ کے انقلاب سے انسانیت کو رہنمائی‘ امن ‘ہدایت و نور ملا ہے۔اور آپؐ کے ارشادات آج کے مہذب انسان کے لئے بھی اسی طرح مفید اور حیات بخش ہیں۔ جس طرح 1500 سال قبل کے انسان کے لئے تھے۔ ان کی روشنی اور تابانی میں ذرا فرق نہیں آیا۔اخلاق کی جھلک‘ کردار کی بلندی‘ امانت ‘دیانت اور انسانیت کے لئے پیار جہاں بھی ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا ہے۔ آپ کی بتائی ہوئی باتیں آج بھی بڑے بڑے سائنس دان پڑھتے ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے اور قلب سلیم رکھنے والے آپ کے آخری نبیؐ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اسلام کے دیئے ہوئے معاشی‘ معاشرتی ‘سیاسی عدل اور خاندانی نظاموں کا جو بھی حصہ جانے انجانے میںکہیں بھی نافذ ہے دنیا اس کی برکات حاصل ہورہی ہیںاور مجموعی طور پر معاشرے ‘نظام اور اسلام کی بخشی ہوئی اچھائیوں کے طفیل ہی ترقی کر رہے ہیں۔ کئی معاشرے صرف سچ کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں‘ بعض ممالک صرف محنت کی بنیاد پر دنیا میں نام پیدا کرچکے ہیں۔جاپان انسانی حقوق کی بناء پر پہچان بنا چکا ہے۔اسی طرح معاشرے سے لے کر فرد تک اسلامی تعلیمات کی برکات پھیلتی ہیں۔حضور انور ؐ سے قبل افریقہ اور یورپ میں غلام بنانے کے بھیانک مناظر دیکھنے میں آئے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ کچھ لوگوں کو دہشت جمانے کی غرض سے بے دردی سے ہلاک کردیا جاتا اور باقیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا اور غلامی کی بھی اس حد تک گری ہوئی مثالیں ان لوگوں نے قائم کیں کہ اپنے معزز مہمانوں کے سامنے شراب و شباب سرو کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں میں تیر دے دیئے جاتے ۔ غلاموں کو سامنے کونے میں بٹھا دیا جاتا اور تیر غلام پر برسائے جاتے۔ جوں جوں غلام تڑپتا تو مہمان محظوظ ہوتیِ جبکہ سرور کائنات نے زید بن حارثہ سے ایسا سلوک کیا کہ وہ اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکاری ہوگئے اور حضورؐ سے چمٹ گئے۔ اس پر تاریخ گواہ ہے کہ نبوت سے پہلے دور میں حضورؐ زید کو کعبے میں لے گئے اور اعلان کیا کہ آج سے زید کو زید بن محمد کہا جائے۔قرآن پاک کے نزول کی اولین سورتوں میں سورہ بلد میں ’’گردنیں آزاد کرو‘‘ کی واضح ایک آیت موجود ہے جبکہ آگے چل کر غلامی کے ادارے کو تدریج کے ساتھ مکمل طور پر اسلام نے ختم کردیا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اصل روشنی اسلام ہی کے پاس ہے یہ مغرب کے پاس جو روشنی ہے وہ اس قسم کی روشنی ہے جو چور اور ڈکیت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ اس لائٹ سے اپنے گھر کا راستہ نہیں ڈھونڈ رہا ہوتا مگر دوسرے کے گھر اور دوسرے کے مال کی طرف ہدایت و رہنمائی لے رہا ہوتا ہے۔ روشنی وہی ہوتی ہے جو انسان کو انسانیت کا سبق دے۔ ڈیزی کٹر پھینکنے کے بعد بسکٹوں کے ڈبے پھینکنے سے خداوند کبھی خوش نہیں ہوتا۔حضورؐ کی تعلیمات پر نگاہ دوڑائی جائے تو حیرانگی ہوتی ہے کہ جو بات آج ہم لمبی لمبی تقاریر میں نہیں کہہ پاتے آپ نے چند جملوں میں کہہ ڈالیں۔ مکہ سے مدینہ تشریف لانے پر آپؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا جو ایک منٹ سے کم وقت کا تھا اور خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آخری تاریخی خطبہ بھی مکمل لکھ لیا گیا اور اس کا وقت بھی دس منٹ سے زائد نہیں ہے۔آیئے آپؐ کی انسان کے حوالے سے فرمائے گئے ارشادات کا جائزہ لیتے ہیں‘میرا یہ آج بھی دعویٰ ہے کہ جو لوگ پیغمبر اسلام کے حوالہ سے نفرت انگیز تحریریں لکھتے ‘ توہین آمیز کارٹون بناتے اوردل آزار فلمیں دکھاتے ہیں ۔ ان تک محسن انسانیت کی تعلیمات حقیقی طور پر پہنچ ہی نہیں سکیں۔
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کردے
Nov 06, 2020