حضرت فریدالدین شیرازیؒ 

جی آراعوان 
شکر کے لغوی معنی نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار اور کسی عنایت یا نوازش کرنے والے کے احسان کو تسلیم کرنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر اللہ کے شکر سے مراد اللہ کی بے پایاں رحمت ،شفقت، ربوبیت، رزاقی اور دیگر احسانات کے بدلے دل میں اُٹھنے والی کیفیت و جذبہ کا نام ہے۔
انسان جب شعور کی نگاہ سے  نفس و آفاق کا جائزہ لیتا ہے تو اسے اپنا وجود اپنی زندگی اور اس کا ارتقاء ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے وہ اپنے اندر، بھوک ،پیاس، تھکاوٹ اور جنس کا تقاضا محسوس کرتا ہے۔ خارج میں ان تقاضوں کے لیے غذا، پانی ، نیند اور جوڑے کی شکل میں اسباب کو دیکھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ساری کائنات اس کی خدمت میں لگی ہوئی ہے تاکہ اس کی زندگی کو ممکن اور مستحکم بنایا جا سکے چنانچہ وہ اس اسباب کو  فراہم کرنے والے خدا کے احسانوں کو پہچانتا ہے اور دل سے اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہی اللہ کے شکر کا ابتدائی مفہوم ہے۔ پھر جوں جوں یہ معرفت ارتقاء پذیر ہوتی ہے تو اس شکر کی گہرائی اور صورتیں رفعت پذیر ہوتی جاتی ہیں۔
یہ وہ درس و تدریس ہے جو اولیاء کرام اختیار کرتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو صراط مستقیم پر چلنے کے لئے سنگ میل قرار دیتے ہیں۔ تمام اولیاء کرام کی تعلیمات میں تصوف اور خدا رسیدگی کا عنصر یکساں موجود ہوتا ہے۔ حضرت سید فرید الدین شیرازی بھی اُن بزرگوں میں سے ہیں جہنوں نے خدا کے شکر کی ترغیب کو تصوف کے سفر کی پہلی منزل شمار کیا۔ فریدالدھر اور وحیدالعصر بننے کے لیے شکر کو عبادت کا لازمہ اور بنیادی شرط قرار دیا ہے۔ ایران کے تصوف نے بہت جلا بخشی ہے۔ حضرت سیدفریدالدین شیرازی نے بھی ایران کے مصلی گلگشت اور آب رکن آباد کی سر زمیں سے بادہ تصوف کے جام نوش کئے۔ اُن کی والدہ گرامی ایام بچپن میں راہیٔ عدم ہو گئی تھیں۔ پرورش کے ساتھ ابتدائی تعلیم کی ذمہ داری سے بھی والد گرامی ہی عہدہ برا ہوئے۔آپ کے والد محترم سید خضرالدین کو سیاحت کا بہت شوق تھا ۔انہوں نے آپ کے ہمراہ ایران سے ہجرت کی اور مختلف علاقوں کی سیاحت کرتے ہوئے ہندوستان پہنچے قدرت کی منشاآپ کو پنجاب لے آئی ۔ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے ۔مسافرت اور سیاحت کے ساتھ ہی تعلیم و تربیت اور سلوک و طریقت کی منازل  بھی سر ہوتی گئیں۔ علم، عمل،عرفان کے بام پر پہنچے تو والد گرامی کے ہمراہ لاہور کی سر زمین منزل بن چکی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور سکھوں کی زیر حکومت تھا، مغلیہ دور زوال پذیر تھا۔ سکھوں کی دہشت اور خوف دلوں پر مسلط تھا ۔اس پرآشوب دور میں تبلیغ اسلام اور انسانیت کی فلاح و بقاء کے لئے کوئی اقدام اٹھانا جان جوکھوں کا کام ہے لیکن اس کارِدارد کے لئے حضرت فریدالدین شیرازی نے لاہور کے علاقے مزنگ میں قیام کیا اور یہاں دین اسلام اور تصوف کے خوگروں کو چشمہ صافی سے آبیار کیا ۔آپ نے حضرت داتا گنج بخش کی درگاہ پر چلہ کشی کر کے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جیسے اولیاء کی سنت کو تازہ کیا۔ اردو، عربی ،فارسی، ہندی اور سنسکرت زبانوں پر عبور حاصل کرنے والے حضرت فریدالدین شیرازی منازل ہوئے سلوک سر کرنے کے لیے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء جیسی جیسی جریدہ روزگار ہستی کی درگاہ پر بھی مدتوں معتکف رہے۔
مزنگ لاہور میں آپ کی درس گاہ کے لئے رنجیت سنگھ کم سن جانشین راجہ دلیپ سنگھ کی والدہ مہارانی جنداں نے مالی امداد کی پیش کش کی ۔ جو حضرت فریدالدین شیرازی نے شکریے کے ساتھ نامنظور کی ۔ جس پر مہارانی آپ کے خلاف ہو گئی۔ حضرت کی روحانی اور عرفانی طاقت کے اعجاز نے جنداں کو کسی  نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی تخت و تاج سے محروم کر دیا۔
1949ء میں تسخیر پنجاب کے بعد انگریز حکمرانوں نے عدالتی امور طے کرنے اور مسند عدالت سنبھالنے کے لئے انسان جب شعور کی نگاہ سے نفس و آفاق کا جائزہ لیتا ہے تو اسے اپنا وجود، اپنی زندگی اور اس کا ارتقاء ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔  
حضرت فریدالدین شیرازی کو دعوت دی۔ آپ یہ منصب کسی معاوضے کے بغیر سنبھالنے پر تیار ہوئے۔یہ وہ دور تھا جب انگریز نے عیسائیت کے پرچار کے لئے گرجوں کے جال بچھا دئیے اور پادریوں کی فوج جمع کر لی۔
مستقل مشزی ادارہ کے لئے انگریزوں نے کوئنز روڑ، شارع فاطمہ جناح پر عیسائیت ہیڈکوارٹر قائم کیا۔ حضرت فریدالدین شیرازی نے انگریز پادریوں  کے ساتھ کنک منڈی مزنگ کے مقام پر مناظرہ کیا ۔ پادری شکست سے دوچار ہوئے اور حضرت کے علم و عرفان کی دھاک بیٹھ گئی۔ آپ نے یہ اعلان کر دیا کہ پیغمبر اعظمؐ ،پیغمبر ؐ آخر کی بعثت کے بعد کسی دوسرے مذہب کی ضرورت ہے نہ اسے رائج ہونے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے۔ حضرت فریدالدین شیرازی نے لاہور میں جدید اسلامی درس گاہیں قائم کیں۔ جن کا صدر مقام مزنگ جب کہ برانچ ڈھلی محلہ موچی دروازے مسجد وزیر خان کے پاس تھی۔
حضرت فریدالدین  شیرازی نے سکھوں سے بادشاہی مسجد کو وگزار کرایا جہنوں نے اللہ کے گھر کو اصطبل بنا رکھا تھا۔ شعرو سخن میں حضرت کو بڑی دسترس حاصل تھی۔ اپنے دور کے بزرگ پیر فضل شاہ آپ سے اصلاح لیتے تھے۔ تاریخ چشتی کے مطابق کنھیالال آپ کے ہم عصر تھے۔ آپ کا عرس 16 اور 17 ربیع الاول کو منایا جاتا ہے ۔ یہی آپ کے وصال کی تاریخ ہے۔ آپ کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کے لئے مرجع خاص و عام ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن