طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کیلئے پروٹین والی غذا لینا نسبتاً آسان ہے کیونکہ اس کے لیے مچھلی، چکن اور انڈے وغیرہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح سبزی خور اس موقع پر پھلوں اور دالوں سے پروٹین حاصل کر سکتے ہیں، چنے، کھمبیاں، دودھ، سویا اور پنیر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ذیابیطس کے مرض کی تشخیص کے بعد انسان کے لائف سٹائل میں خاطر خواہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق اکثر اوقات ابتدائی خوف ڈپریشن کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے۔ متاثرہ شخص کو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ شاید وہ آئندہ کبھی بھی میٹھا نہیں کھا سکے گا، اور شاید اس کا لائف سٹائل ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔
ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں جو بالخصوص بچوں اور نوجوانوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ٹائپ 1 ذیابیطس کی وجہ لبلبے یعنی پینکریاز کے بیٹا سیلز کا کم مقدار میں انسولین پیدا کرنا ہے۔ ایسے افراد کو زندگی بھر کے لیے انسولین کا انجیکشن لگانا ہوتا ہے۔
ٹائپ 1 ذیابیطس سے متاثرہ افراد کو وقت پر کھانا کھانے کی پابندی کرنا ہوتی ہے تاکہ وہ انسولین کا انجیکشن بھی وقت پر لگا سکیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں شوگر لیول میں کمی بھی واقع ہو سکتی ہے جبکہ ٹائپ 2 ذیابیطس کا تعلق موٹاپے اور زیادہ کھانا کھانے سے ہے۔ ٹائپ 2 سے متاثرہ افراد کی ترجیح وزن کم کرنا ہونا چاہیے جو ورزش اور کھانے میں کمی سے ممکن ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں ذیابیطس کی ایک بڑی وجہ کاربوہائیڈریٹ کا جسم میں اضافہ ہے اور اس کی وجہ سفید چاولوں اور ریفائنڈ گندم کا زیادہ استعمال ہے اس لیے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ایک بار ذیابیطس کی تشخیص ہو جائے تو کاربوہائیڈریٹس کی مقدار خصوصاً چاول اور گندم کی خوراک کو کم کرنا پڑے گا۔ ان کو سبز پتوں والی سبزیوں کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے، جبکہ سبزی نہ کھانے والے ان کو پھلوں، پروٹین اور فائبر والی اشیا کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں۔
پروٹین والی غذا لینا نسبتاً آسان ہے کیونکہ اس کے لیے مچھلی، چکن اور انڈے وغیرہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح سبزی خور اس موقع پر پھلوں اور دالوں سے پروٹین حاصل کر سکتے ہیں اسی طرح اس کے لیے چنے، کھمبیاں، دودھ، سویا اور پنیر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں صحت مند فیٹس بھی لیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے مونو ان سیچوریٹڈ بہترین ہیں جو زیتون کے تیل، کارن آئل، جینجلی آئل، مونگ پھلی کا تیل اور سرسوں کے تیل میں ہوتے ہیں
پولی سینچوریٹڈ فیٹس کا استعمال بھی ٹھیک ہے جو زعفران اور سورج مکھی کے تیل میں ہوتے ہیں جبکہ سیچوریٹڈ یعنی سیر شدہ فیٹس جیسے پام آئل اور ناریل کے تیل سے پرہیز بہتر ہے۔
اسی طرح ٹرانس فیٹس جو بیکری کے سامان میں پائے جاتے ہیں جیسے بسکٹ اور تلی ہوئی چیزوں سے بھی بچنا چاہیے کیونکہ ان سے کولیسٹرول بڑھتا ہے جو آگے جا کر دل کی بیماریوں اور دل کے دورے کی طرف لے جا سکتا ہے۔
کس کو کس قسم کی ورزش کرنی چاہیے اس کا دارومدار عمر اور جسمانی صحت پر ہے، آدھے گھنٹے کی واک سے شروع کرنا چاہیے اور اسے پھر پینتالیس منٹ یا ایک گھنٹے پر لے جانا چاہیے جبکہ ورزش کرتے وقت ایف اے آر کے اصول کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایف اے آر سے فلیکسیبلٹی، ایروبک ایکسرسائز اینڈ ریزسٹنس بنتا ہے۔ ورزش کو بڑھا کر فلیکسیبلٹی یعنی لچک بڑھائی جاتی ہے۔ ایروبک یعنی زیادہ آکسیجن حاصل کرنے ورزشیں جیسے چہل قدمی، دوڑ، تیراکی، سائیکلنگ وغیرہ کی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح ریزسٹینس ٹریننگ سے جسم اعضا کی کارکردگی میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور اس کے لیے ہلکا وزن اٹھانے کی مشق کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ دباؤ کو مراقبے اور یوگا کے ذریعے زائل کرنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی دوسری سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا جا سکتا ہے۔
مختصر یہ کہ کسی کو ذیابیطس جس بھی ٹائپ کا ہو اس کو اپنا لائف سٹائل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ درست طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی میں کچھ نمایاں تبدیلیاں آپ کو وزن کی کمی کی طرف لے جا سکتی ہیں تاہم یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ شروع کے دنوں میں ذیابیطس کے لوٹنے کا احتمال بھی رہتا ہے۔
اس سے آپ کو ذیابیطس کے لیے استعمال ہونے والی دوا میں کمی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بیماری قابو میں آ سکتی ہے اور آنے والے وقت میں اس کے مضر اثرات سے بھی بچاؤ ممکن ہے۔