کراچی (نوائے وقت رپورٹ) مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے معیشت سست ہوئی۔ غیر متوقع طور پر پاکستان میں غذائی قلت پیدا ہوئی۔ پاکستان کو سمندر پار پاکستانیوں کی 29 ارب ڈالر کی ترسیلات نے بچایا۔ پاکستان 1968ء میں جنوبی کوریا اور سعودی عرب سے بڑی معیشت تھا۔ مشرقی پاکستان کے چھن جانے کے بعد ہماری راہ برقرار نہ رہی۔ ملک میں معیشت کو قومیایا گیا۔ ہم افغانستان کی جنگ میں بلاوجہ شامل ہو گئے۔ توانائی کے شعبے کو 770 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں۔ پاکستان کا 85 فیصد قرض سات شہروں میں استعمال ہوتا ہے۔ کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ خط غربت سے نیچے افراد 70 سال سے معیشت کے اثرات ملنے کا انتظار کر رہے۔ معاشی بدحالی کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ کرونا کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی۔ ہم ابھی غذائی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ توانائی کا شعبہ شدید بحران سے گزر رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی درآمدات کو روکیں گے رواں مالی سال 6 ہزار ارب روپے کی محصولات جمع کر لیں گے۔ آئی ایم ایف ہم سے جو چاہتا ہے ہم ان شرائط کے قریب ہیں۔ آئی ایم ایف نے جو ریونیو ہدف دیا اس سے زائد حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کی مستحکم ترقی چاہتا ہے۔ ڈسکوز 27 فیصد کا نقصان کر رہی ہیں۔ بجلی کے نظام کی تنظیم نو کرنا ہو گی۔ گیس کی کراس سبسڈی کو ختم کرنا ہو گا۔ گیس کے متبادل ذرائع ایل پی جی پر انحصار کرنا ہو گا۔ 2020ء میں 6 سو ارب رواں مالی سال 8 سو ارب روپے کیپسٹی کی مد میں دینا ہو ں گے۔ بجلی میں 17 فیصد نقصان ہے۔ دس فیصد بل وصول نہیں ہو رہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ پٹرولیم لیوی کو 9 روپے کم کر دیا ہے۔ پٹرول پر اب تک 450 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ سبسڈی نہ دیتے تو پٹرول 180 روپے فی لٹر ہوتا۔