سابق امریکی صدر بل کلنٹن جب پاکستا ن کے دورے پر آئے تو یہاں پرویز مشرف چیف ایگزیکٹیو اور رفیق تارڑ صدر مملکت تھے ۔ بل کلنٹن چار دن بھارت پورا ایک دن بنگلہ دیش رہے صرف چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آئے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہاں عوام اور سرزمین کے اصل حکمران اور ’’وائے سرائے‘‘پاکستانی قوم کو بھاشن دے رہے ہیں۔امریکی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ پاکستان کی قوم اور عوام سے مخاطب ہیں،انھوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ ’’War Against Terrorism ‘‘امریکہ اور نیٹو فرسز کا ساتھ دینا ہے یا پتھر کے دور میں جانا ہے۔ پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی حکومت اور ان کے اتحادیوں کا ساتھ دیا۔ساری دنیا کے ممالک اپنے بہتر مفاد ،معاشی صورتحال کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں،قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے فوجی اور سیاسی راہنمائوں نے یہی فیصلے کئے جو کہ بہتر ہی ہوں گے۔فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کی کتاب ’’Master Not Friends ‘‘یقینا اپنے مشاہدوں تجربات اور زمینی حقائق پر تھی۔پاکستان میں عوامی حمایت کے بغیر جو بھی غیر جمہوری یا پھر جمہوری عمل سے آئے ان کو ہر وقت اور ہر دور میں امریکہ کی حمایت کی ضرورت تھی۔جنوب مشرقی ایشاء میں تو ہر ملک اپنے آپ کو کامیاب اور طاقت ور سمجھتا ہے۔جب امریکی امداد اور حمایت جاری ہو ،پاکستان اللہ تعالیٰ کے کرم سے ایک ایسی اہم ترین پٹی پر آ گیا کہ پاکستان تو شاید دنیا کے بغیر زندہ رہے سکتا ہے مگر دنیا پاکستان کے بغیر نہیں رہے گی۔پاکستان کی بد قسمتی رہی کہ کرپٹ،بدعنوان، ذاتی مفاد کے حامل سیاسی و فوجی حکمران ملے۔پاکستان کی 74 سالہ تاریخ کو دیکھیں تو قائداعظم محمد علی جناح کے گرد بھی سازشی عناصر تھے اس لئے انھوں نے کہا کہ میرے چند ہمراہ ’’چند کھوٹے سکے ہیں‘‘صدر ایوب خان معمولی خاندان سے تعلق تھا،مگر آج چوتھی نسل بھی ارب پتی ہیں۔آج بھی اگر دیکھیں تو پاکستان کی قوم ایک ’’ہجوم‘‘کا تصور پیش کرتی ہے،’’قوم ‘‘نہ بن سکی۔علاقائی،قومیت ،نسانی اور مذہبی تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔آج بھی 2021 ء میں بھارتی قوم ایک ہندو قوم کے طور پر نظر آتی ہے مگر پاکستانی آج ایک پاکستانی قوم نہ بن سکی ۔نا جانے پاکستان کی خارجہ پالیسی کون بناتا ہے اور کون دیکھتا ہے؟۔وزارت خارجہ میں آنے والوں کی کوششیں ہوتی ہیں کہ ان کا سارا خاندان بیرون ممالک شہریت حاصل کر کے وہاں ہی سیٹل ہو جائیں۔صرف آج میڈیا پر امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے جنوب ایشیاء ساجد تارڑ کو دیکھیں وہ کیا گفتگو کر رہے ہیں۔ہمارے وزارت خارجہ کے وفاقی وزیر ،سیکریٹری ،سٹاف اور بیرون ممالک ایمبیسڈرز کو ان سے تربیت حاصل کرنی چاہئے۔ساجد تارڑ اسلام آباد جی سکس کے ایک اسکول اور کالج کا سابق طالب علم اپنی محنت اور جدوجہد سے امریکہ کی پاور راہ داریوں میں وہ مقام بنایا جو کہ پاکستان کے کسی سیاسی راہنما ،حکمران اور اپوزیشن حاصل نہ کر سکی ۔ایسے سینکڑوں پاکستانی امریکہ ،یورپ ،برطانیہ ،جرمنی ،فرانس اور جاپان میں ’’Power Coridoor ‘‘میں چلتے پھرتے پاکستان ہیں مگر کیا کسی پاکستانی حکمران سابق یا پھر موجودہ نے ایسی کوششیں کی کہ ساری دنیا میں پاکستان کا سافٹ اور بہتر تاثر ان محب وطن بلا تنخواہ سپاہیوں سے پیدا کریں۔برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ممبران آتے ہیں۔پاکستان سے جو لوگ،وزیر،وفود اور صدر آزاد کشمیر امریکہ گئے سرکاری خرچے پر انھوں نے بھارتی وزیراعظم کے یو این او کے خطاب کے موقع پر مظاہرے میں شرکت نہ کی حالانکہ بھارتی سکھوں نے مظاہرے کئے ،کشمیر کمیٹی کے چیئر مین شہریار خان آفریدی ایک ’’پلے بوائے‘‘دریس آپ میں نیو یارک کے پوش ایریا ’’مین ہیٹن ‘‘میں نشہ کرنے والوں کو کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں شیلٹر لیس لوگ ہیں حالانکہ یہ حقائق کے برعکس بات تھی۔امریکہ میں امریکہ کو گالی دے وہاں رہنے والے پاکستانیوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں،اگر کئی بہتر بات نہیں کر سکتے تو خاموش رہیں۔پاکستانی نژاد محمد ساجد تارڑ بلکہ اسلام آباد جی سکس کے رہائشی اسکول میں پڑھ کر جانے والے نے کیا کہا؟،کہ ہم پاکستانی امریکہ میں شرمندہ ہیں۔انھوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ برطانیہ سے پڑھے ہوئے ہیں یورپ امریکہ اور برطانیہ کے انگریزوں کو بہتر سمجھ سکتا ہوںاور سمجھا سکتا ہوں۔ساجد تارڑ نے کہا بھارتی وزیراعظم نے ’’ہندو تنوا‘‘کا تصور دیا،سارے ہندو ایک جھنڈے تلے جمع کئے ،پاکستان کے حکمران اور لیڈر کونیشنلسٹ ہونا چاہئے تو سب کہیں کہ سب سے پہلے ’’پاکستان‘‘مگر عمل زیرو ہیں۔بھارتی اپنی مکمل میڈیا ٹیم اور امریکی میڈیا ٹیم کے ہمراہ اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔پاکستانی وفود بزنس کلاس میں آ کر اعلیٰ ہوٹلوں میں رہے مگر کئی کوئی موثر کار کردگی نظر نہ آئی ۔شہریار خان آفریدی کے بارے میں کہا کہ ٹائم اسکوائر میں امریکہ اور اس کی قوم کا مذاق اُڑایا جس نے جدید ترقی اور ٹیکنالوجی ساری دنیا کو دی۔یقینا پاکستانی وفود کے اہداف امریکہ دشمنی نہ تھی مگر پاکستانی اعلیٰ حکام بغیر تیاری کے آئے،جہاں بھارتی وزیراعظم ٹھہرے تھے وہ ہوٹل وائٹ ہائوس سے صرف ایک بلاک پر تھا۔سکھوں نے وہاں بھارتی وزیراعظم کے خلاف مظاہرہ کیا مگر پاکستانی اور کشمیری نظر نہ آئے ۔پاکستان کی قیادت اور حکمرانوں کو امریکہ سمیت تمام ممالک سے تعلقات پاکستان کی بنیاد پر اور پاکستان کے لئے بنائے جائیں ۔پاکستان کی قیمت پر نہیں وزارت خارجہ اور سفارتی محاذ پر کام بہترکرنا ہو گا۔