چند روز قبل شروع ہونے والا کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور حکومت کا تنازعہ اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔ اس لڑائی میں ٹی ایل پی اپنے تمام تر مطالبات تسلیم کروانے میں کامیاب نظر آتی ہے جبکہ اس ٹکراؤ میں حکومت کو خسارہ ہی خسارہ ہوا ہے۔ حکومت اب اپنی شرمندگی، خجالت اور شکست کا تأثر دینے کے لیے پولیس کو قربانی کا بکرا بنا رہی ہے۔ ٹی ایل پی کے لانگ مار کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری صرف پولیس کی ناقص حکمت عملی پر نہیں ڈالی جا سکتی لیکن حکومت تمام تر ملبہ پولیس پر ڈال کر اپنے آپ کو محب وطن، اسلام دوست اور ا سلام کا خیرخواہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے لے کر پنجاب پولیس میں وسیع پیمانے پر تبادلوں تک حکومت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ٹی ایل پی کے معاملے پر نہ انہیں کوئی پریشانی تھی اور نہ ہی یہ تبادلے اس تسلسل کا حصہ ہیں جبکہ پولیس میں ہونے والی انکوائری اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں یہی ظاہر کرتی ہیں۔ اس سب میں سی آئی اے حافظ آباد کے انچارج کا آئی جی پنجاب کے نام وہ خط بھی شامل ہے جس میں انہوں نے پولیس کی ناکامی کی وجوہات کھل کر بیان کیں۔ اس خط کو پڑھ کر آپ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پولیس کو حکومت نے صرف اور صرف قربانی کا بکرا بنایا ہے۔
خط کی چند سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ پولیس فرنٹ لائن پر رہ کر ٹی ایل پی کی ریلی روکنے میں تین سے چار مرتبہ کامیاب ہو چکی تھی مگر اس کے پیچھے قائم ڈیفنس لائن، جس کے پاس اسلحہ اور جدید ہتھیار بھی تھے، اچانک غائب ہو جاتی تھی جبکہ پولیس کے پاس اسلحہ موجود نہ تھا۔ پولیس کو سخت احکامات تھے کہ ٹی ایل پی کے شرکاء کو پولیس کی جانب سے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ چند شرپسندوں کا خیال ہے کہ حکومت نے اپوزیشن اور عوام کی جانب سے روزبروز مہنگائی پر بڑھتی تحریک کے پیش نظر عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ٹی ایل پی کا احتجاج کروایا تاکہ چند روز کے لیے مہنگائی سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ ٹی ایل پی اور حکومت میں مفاہمت ہو گئی ہے۔ مفاہمت ہوتے ہی پٹرول مزید مہنگا ہو گیا۔ ایک مرتبہ پھر آٹا، چینی، گھی، دال، بجلی، پٹرول، گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حکومتی وزراء مہنگائی اور ٹی ایل پی معاہدے پر میڈیا سے نظریں چرا رہے ہیں۔
اگر فواد چودھری کے بیان پر غور کیا جائے تو ٹی ایل پی سے معاہدہ پاکستان کے لیے سفارتی تنہائی کا باعث بننے کا امکان ہے۔ پاکستان کا نام فیٹف کی گرے لسٹ میں موجود ہے۔ دشمن ملک بھارت اور اس کے حمایتی پاکستان کے خلاف سازشیں کر کے ہر صورت ہمیں بلیک لسٹ میں ڈلوانا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ دن رات جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ادھر، حکومت نے جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دینے والے اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے ملکی موقف پیش کرنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ٹی ایل پی معاہدے میں ثالث کا کردار سونپ رکھا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کردار اور وفاقی وزیر فواد چودھری کے بیان کو گہری نظر سے دیکھیں تو ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ شاہ محمود قریشی کی جگہ اگر فواد چودھری اور شیخ رشید ہی ثالث کا کردار ادا کرتے رہتے تو بہتر نہ تھا؟
یہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ معاہدہ کرنے میں حکومتی ایوان بری طرح ناکام ہو چکے تھے۔ معاہدہ تو راولپنڈی نے کروایا ہے۔ ہم واپس آتے ہیں پنجاب پولیس میں ہونے والے وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی جانب۔ تحریک انصاف کی حکومت کا یہ وتیرہ بن چکا ہے کہ ہر آنے والے افسر کو نمبرون قرار دیا جاتا ہے اور اس کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا جاتا ہے مگر جلد ہی اس سے دل بھر جاتا ہے، خواہ وہ اچھا کام بھی کر رہا ہو اور اسے رخصت کرتے وقت ذلت کی دلدل میں دھنسا دیا جاتا ہے۔ ویسے حکومت کو اب کوئی ایسی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی جس کے ذریعے عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ حکومت نے اپنے متنازعہ تین سال مکمل کر لیے ہیں۔ اب الیکشن کا سال ہے اور ہاں میرے پاس خبر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کامیاب مذاکرات کر چکی ہے۔ میاں نوازشریف نے میاں شہبازشریف کو پنجاب میں اِن ہاؤس تبدیلی کے لیے اجازت بھی دے دی ہے جس وجہ سے حمزہ شہباز نے نہ صرف جنوبی پنجاب میں کامیاب دورہ مکمل کیا ہے بلکہ غیر ملکی سفیر بھی حمزہ شہباز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ احسن اقبال کی خورشید شاہ سے دو گھنٹے کی ملاقات پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا پنجاب میں ڈیرے ڈالنا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو بڑھتی ہوئی قربتیں اور مریم نواز کی خاموشی پنجاب حکومت کے لیے کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ ہمارے سینئر صحافی محترم فاخر ملک بھی کچھ ایسا ہی موقف پیش کر رہے ہیں۔
پنجاب میں اگر اِن ہاؤس تبدیلی آگئی تو وفاق میں خطرات بڑھ جائیں گے مگر پنجاب کی حد تک تو اِن ہاؤس پر اپوزیشن جماعتیں متفق نظر آتی ہیں مگر وفاق پر مسلم لیگ (ن) ایسی کسی بھی موومنٹ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی ہے۔ پنجاب کے عوام مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے عادی ہو چکے ہیں، ان کو تبدیلی راس نہیں آئی۔ حمزہ شہباز پنجاب حکومت کے نہ صرف داؤ پیچ اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ اپنے والد کی طرح ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں۔ اس لیے حکومت کو اب تقرر و تبادلوں سے توجہ ہٹا کر اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی ورنہ پنجاب حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔