تیرہ چودہ روز ڈینگی بخار میں مبتلا رہنے کے بعدآج طبیعت کچھ سنبھلی ہے تواسوقت میرے سامنے اخبارات سے بھری میزپر میرے لکھنے کیلئے ان گنت موضوعات بکھرے پڑے ہیں ۔کہیں لانگ مارچ کی داستانیں ہیں تو کہیں پنجاب حکومت کی مصلحتیں ، کہیں سیاستدانوں کی من مانیاں ہیں تو کہیں سیاسی لیڈروں کی چالیں ہیں ،کہیں جوان لاشیں ہیں تو کہیں بوڑھے کاندھوں پر جنازے اٹھائے سسکتے افلاس کے مارے بے سہارا بزرگ ہیں ،کہیں آگ ہے تو کہیں نفرتوں کے پتھروں کی بارش ہے کہ اقتدار اور مفادات والی کرسی کی جنگ میں تمام سیاسی فنکار ہر قسم کی حدیں توڑرہے ہیں یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں شریک تین معصوم بچوں کے ہاتھوں میں سسکتی باپ کی لاش الگ داستان سنا رہی ہے لیکن کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ بچوں کو دلاسا دیکر، ننھے بچوں کے سامنے پڑی خون میں لت پت لاش کو ڈھانپ کر،انھیں بے رحم دنیا کی تکلیفوں سے آگاہی دے دے ۔انھیں بتادے کہ آج انکے سر سے آسمان ہٹ گیا ہے اور اب انھیں زندگی کی جنگ خود لڑنا ہوگی ۔ عجیب گہما گہمی ،انتشار ،اکھاڑ پچھاڑ اور خانہ جنگی کا ماحول ہے ۔دکھ تو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت احتجاجی تحریک چلائے تو لاشیں ہمارے اپنوں کی ہی اٹھتی ہیں ان سیاسی وڈیروں کا کچھ نہیں بگڑتا ۔اسی لئے یہ سب پچھتر برس سے جاری ہے اور یونہی جاری رہے گا کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت بھی آمریت کی بگڑی ہوئی شکل بن چکی ہے ۔عوام سسکتے رہیں گے اور سیاستدان حقیقی ایشوز کو نت نئے ڈراموں سے الجھاتے ہوئے مدت اقتدار گزارتے رہیں گے لیکن عوام کیلئے کچھ نہیں کرینگے اسلئے یہ سیاسی تجزیے تو چلتے رہیں گے لیکن آج انھیں اخبارات کے ڈھیر میں میری نظرجناب نوید ملک کے مجموعہ کلا م پر پڑی ہے جو کہ چار روز قبل موصول ہوا ہے ۔یہ سچ ہے کہ ایک شاعر ہمارے احساسات و جذبات کا وہ سفیر ہے جو ان کہی کو الفاظ کا پیرہن پہنا کرہماری بے خودی کو ایسی پرواز دیتا ہے کہ قاری کہہ اٹھتا ہے کہ
جب بھی چاہوں ترے احساس کو پیکر کر لوں
تو حواسوں پہ میرے ایسے چھایا ہے
میں سوچتی ہوں کہ شاعر نہ ہوتا تو ہمارے خیالات کو مجسم صورت کون دیتا پھر وہ سیاسی صورتحال ہو ،قومی ہو ،عوامی ہو یا داستان دل ہو یعنی جو بھی جیسے بھی ہو ، ہم کسی بھی جذبے کو بیان کرنے کا سوچیں تو شعر ہی زود فہم اور دلکش ذریعہ اظہار ٹھہرتا ہے اور ایسے ہی شعراء میں نوید ملک کا شمار ہوتا ہے جن کے الفاظ یادوں کے تاب دان میں ساکت لمحوں کو مجسم صورت عطا کرتے ہیں۔مذکورہ مجموعہ کلام کی شہرت کالموں کے توسف سے پہلے ہی مجھ تک پہنچ چکی ہے ۔نوید ملک سے میرا تعارف کتاب کے ہی ذریعے ہوا ۔2013 میں نوید ملک کا پہلا مجموعہ کلام ’’کامنی ‘‘ شائع ہوا تھا جس پر دیگر معروف لکھاریوں کی طرح مجھے بھی تنقیدی جائزہ لکھنے اور الحمرا ء میں منعقدہ شاندار تقریب پذیرائی میں پڑھنے کا موقع ملا تھا لیکن اب چار مجموعہ کلام منظر عام پر آچکے ہیں اور شہرت دوام حاصل کر چکے ہیں ۔انکی شعری تخلیقات پر بھارت و پاکستان کے نامور نقاد لکھ رہے بلاشبہ ان کی شاعرانہ و درویشانہ شخصیت پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے لیکن آج میں زیادہ تفصیل میں نہیں جائونگی ویسے بھی اہل علم جانتے ہیں کہ کسی بھی شاعر کے شعری مجموعے کا مطالعہ دراصل اس کی شخصیت اور نظریات کا مطالعہ ہوتا ہے کیونکہ ہر تخلیق کسی نہ کسی فکر و احساس کے تابع ہوتی ہے وہ احساس جس کا چشمہ تشنگی ،بے چینی اور کم مائیگی کے کرب سے پھوٹتا ہے اور سینہ قرطاس میں چھپ جاتا ہے اور جو کلام انسانی جذبات کو بر انگیختہ کر دے اور ان کو تحریک دے دے وہی شعر کہلاتا ہے جیسا کہ مولانا حالی نے کہا ہے کہ تخیل کی قوت خدادا د ہوتی ہے شاعر اسے اپنے ساتھ لیکر پیدا ہوتا ہے ۔یقینا شاعر کا تخیل اور فکر اعلیٰ نہ ہو تو یہ سطحی شاعری ہوگی لیکن تخیل اتنا بھی مشاہدے سے بلند نہ ہو کہ قاری الجھ کر رہ جائے اس لئے تخیل میں سہل اندازی ضروری ہے ورنہ شعر بد مزہ ہوجائے گا اورنوید ملک کا کلام سادگی و پرکاری کا بہترین نمونہ ہے وہ مشکل پسندی اور شعلہ بیانی کی بجائے نرم آہنگی کو پسند کرتا ہے جو لفظوں سے روحوں کے وصال کو ممکن بناتا ہے۔ یقینا میری نظر میںشاعری فکر کا کمال ہی نہیں بلکہ دل کے گداز کا معاملہ ہے اور ہر کسی کو گداز عطا نہیں ہوتا ۔ جب لذت آشنائی سے کرب شناسائی کا سفر ریاضت میں کٹے تبھی گداز کی دولت ہاتھ آتی ہے اور فکری بلند پروازی ایک عام سے انسان کو خاص بنا دیتی ہے۔نوید ملک کا مجموعہ اسکے سفر زیست اور فہم وادراک کاآئینہ ہی نہیں بلکہ محبوب کی بے رخی ،معاشرتی بے ثباتیوں اور موجودہ عہد کی صداقتوں کی دل گداز تاریخ بھی ہے جس میں ہر طبقے کے قاری کو اپنے احساسات کی جھلک ملتی ہے جس پر جناب امجد اسلام امجد نے بھی کیا خوب کہا ہے !
یہ عجیب کھیل ہے عشق کا ،میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آگئے
نوید ملک کی شاعری سے اہل علم و ہنر کی بڑی امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں ۔ اسکی نظموں میںانسانی وجود کی حسیات اور عصری شعور کے دھارے کو ایک ساتھ موج در موج لہریں لیتا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔یقینا وہی شاعر زندہ رہتا ہے جو پٹے ہوئے اسلوب کو نہیں اپناتا بلکہ اپنا رنگ دکھاتا ہے اور ان لمحوں کو پابہ زنجیر کرتا ہے جو اس پر بیتے ہوں یعنی ارد گرد کی دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور چھونے کی صلاحیت رکھتا ہو اور یہی تجربات و مشاہدات راز حیات کی گرہیں کھولتے ہیں اور شاعر کے الفاظ ہر دل کی زبان ہو جاتے ہیں ۔نوید ملک کے اظہاربیان میں یہ خاصیت ہے کہ ہمارے خیال مجسم صورتوں میں پردہ بصارت پر تھرکنے لگتے ہیں اور یہ کمال اسلئے آیا کیونکہ وہ قیس کی طرح یادوں کے تاب دان سے جھانکتاریگستان کی صرف ریت نہیں چھانتا بلکہ ایسا عارف ہے جو آگاہی کے پر اسرار جنگل میں خود کو تلاشتاحقیقی منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔ اسکی ایک غزل آپ کے اعلیٰ ذوق کی نظر اس دعا کے ساتھ کہ نوید ملک شاعروں کی کہکشاں میں پہلے سے زیادہ تابناکی کے ساتھ روشنی بکھیرے اور شعر سے آگاہی اور محبت رکھنے والے سنجیدہ قارئین سے خراج تحسین وصول کرتا رہے گا۔
٭…٭…٭