عمران فائرنگ کی سکاٹ لینڈ سے تحقیقات کرالیں۔ مریم اورنگزیب
سکاٹ لینڈ دنیا کا مشہور سراغ رساں ادارہ ہے۔ لوگوں کو اس پر بہت اعتماد بھی ہے۔ جو قانونی معاونت کرکے جرم کی تہہ تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ اب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے عمران خان سے کہا کہ حملہ کی تحقیقات وہ جہاں سے چاہے کرالیں بے شک سکاٹ لینڈ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر انہیں اپنی ایجنسیوں پر اعتماد نہیں ہے۔ شاید مریم اورنگزیب یہ بھول رہی ہیں کہ سکاٹ لینڈ بھی اب کوئی اتنی بڑی توپ چیز نہیں رہا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش بھی انہوں نے کی تھی ۔ نتیجہ کیا خاک نکلا ۔ کہنے کو لوگ کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے وہ سارا معاملہ ہائی جیک کرلیاتھا رپورٹ ہنوز نامکمل ہے۔
اب عمران خان کے معاملے میں کیا کچھ نہیں ہوسکتاہے۔ وزیراطلاعات ، ونشریات نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ عمران خان خود بھی تفتیش میں شامل ہوں ۔ یہ تو بڑا مشکل سوال ہے ۔ ایسا شاید وہ نہیں کرسکیں گے وجہ جو بھی ہو۔ علاوہ ازیں یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اپنی ایجنسیوں اور تحقیقاتی اداروں پر آخر اعتماد کیوں نہیں ہے۔ ہمارے پاس بھی اچھے اچھے ادارے اور لوگ موجود ہیں۔ مگر شاید ہم نے خود ان پر انگلیاں اٹھا اٹھا کر ان کے خلاف فضا بنا دی ہے اورپراپیگنڈاکرکے ان کی مہارت اور دیانت مشکوک بنادی ہے۔ جبھی تو ہمیں حقیقت جاننے کے لیے غیروں کی طرف دیکھنا پڑرہاہے۔ بہتر ہے دنیا کے سامنے تماشہ بننے کی بجائے اپنے اداروں سے صاف شفاف تحقیقات کراکر دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی کیاجائے۔ ہمیں اپنی ایجنسیوں اور اداروں پر اعتماد کرنا ہی ہوگا۔ ورنہ صرف جگ ہنسائی ہوگی۔
٭٭٭٭
لانگ مارچ میں ہلاک ہونے والا معظم گوندل سپرد خاک
دیکھ لیں پنجاب حکومت اورپی ٹی آئی کسی کی اس غریب پر نظر نہیں پڑی جو سرعام بے گناہ مارا گیا۔ لانگ مارچ کی بھینٹ چڑھا۔ زخمیوں کے علاج معالجے پر آسمان سرپر اٹھایا ہواہے۔ مگر یہ جو غریب جان سے گیا اس کے گھر والوں کا حال تک کسی نے نہ پوچھا ۔ وہ تو پی ٹی آئی کا سپورٹر تھا کارکن نہ سہی ووٹر تو تھا جبھی تو لانگ مارچ میں آیا تھا ورنہ اسے کیا پڑی تھی کہ جان گنوا نے آتا۔پنجاب حکومت ہی اسکی وارث بنتی ویسے بھی حکومت شہریوں کی وارث ہوتی ہے۔ اشک شوئی کے بہانے ہی اسکے یتیم بچوں کے سرپر ہاتھ رکھتی کروڑوں نہ سہی چند لاکھ ہی امداد دیتی۔ پی ٹی آئی والے اسے شہید قرار دیتے ہیں مگر اسکی مدد کے لیے ان کا دل کیوں نہیں پسیج رہا۔ خان صاحب نے ایک لفظ بھی اس مرحوم کے حق میں ادا نہیں کیا۔ ورنہ بڑے بڑے سرمایہ دار پی ٹی آئی میں موجود ہیں۔ انہیں ہی حکم دیتے تو مقتول کے گھر پر امداد دینے والوں کا رش لگ جاتا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا کیونکہ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
ہمارے سیاستدان اپنی مطلب براری کیلئے غریبوں کا استحصال کرتے ہیں ان کی لاشوں پر تاج محل بنانے کے عادی ہیں سو آج بھی یہی ہورہاہے۔ نجانے وہ تبدیلی کا خواب کہاں بکھر گیا جو آنکھوں میں سجائے اپنے 2 بیٹوں سمیت یہ معظم گوندل لانگ مارچ میں آیا تھا۔ جسکے چھوٹے چھوٹے بچے گولی لگنے کے بعد چیخ چیخ کر اسے اٹھاتے رہے کہ ابو اٹھو ‘مگر معظم ایسا گراکہ پھر نہ اٹھ سکا۔ اسکی موت پنجاب کے حاکموں اور پی ٹی آئی کے سربراہ سے انصاف طلب کررہی ہے۔
٭٭٭٭
گورنر ہائوس پر حملہ اور پنجاب پولیس کی بے حسی
صرف لاہور کی یا گورنر ہائوس کی بات نہیں‘ گزشتہ روز پنجاب اور خیبر پی کے میں جس طرح پولیس مظاہرین کے سامنے خاموش تماشائی بن کر کھڑی رہی وہ افسوسناک ہے۔ لاہور میں گورنر ہائوس کی پرشکوہ عمارت ایک صدی سے زیادہ سے لاہور کے قلب میں ایک تاریخ سناتی کھڑی ہے۔ جس نے انگریز حاکموں کا جاہ و جلال بھی دیکھا۔ پاکستان بننے کے بعد مقامی حکمرانوں کا کروفر بھی دیکھا۔ یہاں اچھے لوگ بھی آ ئے اور برے بھی۔ یہ عمارت تاریخی ورثہ ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے حکومت میں آنے سے قبل کہا تھا‘ کہ وہ گورنر ہائوسزاور وزیراعظم ہائوس کو پلے گرائونڈ یا یونیورسٹیوں میں بدل دیں گے ان کی دیواریں گرا دیں گے وہ بھی ایسا نہ کر سکے۔ گزشتہ روز اس گورنر ہائوس کے باہر مشتعل مظاہرین نے جو کچھ کیا‘ سب نے میڈیا پر دیکھا۔ سرکاری کیمرے‘ آرائشی اشیاء مشتعل مظاہرین نے توڑیں، گیٹ پر آگ لگائی مگر پنجاب پولیس کے چاق و چوبند دستے خاموش ایک طرف پتھر کے بت بنے کھڑے رہے۔ گورنر ہائوس سرکاری عمارت ہے سرکاری عمارات اور املاک کی توڑپھوڑ جرم ہے۔ پولیس کا کام اس کو روکنا تھا مگر شاید وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم کے مطابق پورے پنجاب میں راولپنڈی تا ملتان پولیس خاموش رہی۔ مظاہرین نے سڑکیں بلاک کرکے لاکھوں شہریوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا مگر کسی نے ایکشن نہیں لیا۔ پولیس اور حکومت پنجاب عوام کی محافظ ہے سرکاری املاک کی محافظ ہے مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام نظر آئی۔ اس کا حساب کون دے گا۔ شنید میں آیا ہے کہ اب گورنر ہائوس کی سیکورٹی رینجرز کے سپرد کر دی گئی ہے۔ خدا جانے سچ ہے یا جھوٹ مگر قومی یادگاروں کو اس طرح سیاسی تعصب کی بھینٹ چڑھانا درست نہیں۔
٭٭٭٭
اسلحہ کے ساتھ آئیں گے‘ وزیرخیبر پی کے کی اسلحہ لہرا کر دھمکی
یہ ہماری سیاست ہے یا ایکشن مووی مولاجٹ یا ’’ٹوپک زما قانون‘‘ جسے دیکھو اسلحہ لہراتے ہوئے ایک دوسرے کی جان لینے‘ کھال اتارنے کی دھمکیاں دیتا نظرآتا ہے۔ قمر زمان کائرہ وزیر امور کشمیر نے درست کہا ہے کہ ’’ایسا تو بھٹو یا بینظیر بھٹو کے قتل پر پیپلزپارٹی کے مشتعل کارکنوں نے نہیں کیا۔‘‘ ورنہ واقعی ان مواقع پر بھی خانہ جنگی کا سامان وافر تھا اور بھارت مشتعل جیالوں کو استعمال کر سکتا تھا۔ تو پھر یہ اب کیوں اسلحہ لیکر اسلام آباد پر چڑھائی اور وزراء پر حملے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ خیبر پی کے سے صوبائی وزیر انور زیب نے گزشتہ روز باجوڑمیں جس طرح احتجاجی جلسے سے خطاب کرکے کلاشنکوف لہرا کر اسلام آباد آنے کا اعلان کیا تو عام ناخواندہ جذباتی کارکنوں پر کیا اثرہوا ہوگا۔ جب ایک پڑھا لکھا ایسی زبان بولے گا تو ناخواندہ یا جذباتی کارکن تو زیادہ خطرناک راہ اختیار کریں گے۔ اب وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ اپنی فکر کریں۔ اگر یہ مسلح جتھے اسلام آباد پر ٹوٹ پڑے تو کیا ہوگا۔ وہاں کے لوگوں کی‘ان کی املاک کی حفاظت کون کرے گا۔ یہ شہر اقتدار تو شہر فسادات بن کر رہ جائے گا کیونکہ جواب میں سکیورٹی ادارے اور خود اسلام آباد کے لوگ بھی جواب دینے لگے تو معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اب صرف خیبر پی کے ہی نہیں‘ ملک کے ہر شہر میں‘ گائوں میں ناجائز اسلحہ کی فراوانی ہے۔ سب اسلحہ نکال کر مقابلہ پر اتر آئے تو پھر دمادم مست قلندر ہی ہوگا۔