انور سدید اور سلیم اختر دونوں میرے بڑے اچھے دوست تھے لیکن دونوں کے باہمی تعلقات بڑے کشیدہ تھے اور کشیدگی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دونوں کے ادبی لیڈر مختلف تھے۔ انور سدید ڈاکٹر وزیر آغا کے محبوں میں سرفہرست تھے جب کہ سلیم اختر نے اپنے آپ کو احمد ندیم قاسمی سے وابستہ کر رکھا تھا۔ احمد ندیم قاسمی وزیر آغا سے چھ سال بڑے تھے اور انھوں نے 1947ء سے چند سال پہلے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ وزیر آغا نے تقسیم کے بعد تصنیف و تالیف کا آغاز کیا۔ ان کی شہرت کا آغاز ہوا تو احمد ندیم قاسمی شہرت کے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ شاعری، افسانہ نگاری اور صحافت تینوں میں ان کی اہمیت تسلیم کی جا چکی تھی۔ وزیر آغا پہلے بطورِ نقاد متعارف ہوئے اور پھر انشائیہ اور شاعری کی طرف راغب ہوئے۔ بظاہر ان دونوں میں کوئی وجہِ نزاع نہیں تھی مگر خدا معلوم کیوں ٹکراؤ شروع ہو گیا۔ قاسمی صاحب ترقی پسند تھے اور آغا صاحب ادب کو کسی مخصوص نظریے کی عینک سے نہیں دیکھتے تھے۔ یہ وجہِ اختلاف سمجھ میں آتی ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ نظریاتی اختلاف ذاتی مخالفت میں تبدیل ہو گیا۔ میری دونوں کے ساتھ نیاز مندی تھی لیکن میں نے اس کشیدگی میں کسی کا ساتھ نہیں دیا۔ دونوں حضرات اپنے ادبی مقام کے بارے میں بڑے حساس تھے۔ احمد ندیم قاسمی نے ادبی مجلہ ’فنون‘ جاری کر رکھا تھا۔ چند سال کے بعد وزیر آغا نے ’اوراق‘ کا اجرا کیا۔ دونوں میں رفتہ رفتہ کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ دونوں رسالوں میں ایک دوسرے کے خلاف تحریریں چھپتی رہتی تھیں۔ علاوہ ازیں، دونوں کے محبان دیگر رسائل اور اخبارات میں بھی ایک دوسرے کے خلاف لکھ کر دلوں کی بھڑاس نکالتے رہتے تھے۔
انور سدید اور سلیم اختر دونوں ان تھک لکھنے والے تھے۔ سلیم اختر نے درجنوں کتابیں تصنیف و تالیف کیں، رسائل اور اخبارات میں بھی پے در پے ان کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے مگر انور سدید اس معاملے میں ان سے بہت آگے تھے۔ دونوں نے لاتعداد کتابیں لکھ کر ادبی دنیا میں تلاطم برپا کرنے کی اپنی سی سعی کی۔ دونوں کو قدرت نے لمبی عمریں عطا کیں۔ وفات کے وقت انور سدید اٹھاسی سال کے تھے (1928ء تا 2016ئ)، اور سلیم اختر چوراسی برس کے (1934ء تا 2018ئ)۔ دونوں کے کریڈٹ پر چند ایسی کتابیں ہیں جو اردو ادب کے قارئین، خصوصاً طلبہ، کے لیے مفید ہیں لیکن غالباً ایک صدی کے بعد دونوں نام ذہنوں سے محو ہو چکے ہوں گے۔
ڈاکٹر انور سدید محکمہ نہر میں انجینئر تھے۔ ادب سے دلچسپی نوجوانی سے تھی۔ پہلے کئی سال صرف مطالعۂ ادب کے شائق رہے، پھر تنقید لکھنے کی طرف راغب ہوئے۔ اس دوران وزیرآغا سے رابطہ ہوا اور جلد ہی ’اوراق‘ میں بہت باقاعدگی سے لکھنے لگے۔ کئی سال بعد پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے ایم اے اردو کا امتحان دیا اور یونیورسٹی میں اوّل رہے۔ اس سال امجد اسلام امجد نے بھی امتحان دیا تھا اور انھوں نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی، چند سال بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی اور نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگا لیا مگر بدستور محکمہ نہر میں کام کرتے رہے اور ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وہ انتہائی دیانت دار شخص تھے۔ ایک ایسے محکمے میں عمر گزاری جہاں ’فضلِ ربی‘ کے امکانات بہت ہیں مگر وہ عمر بھر تین مرلے کے مکان میں رہائش پذیر رہے۔ ان کے ہاں کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا مگر مکانیت کی تنگی کے سبب کتابوں کو کبھی ترتیب نہ دے سکے۔ تعجب ہے کہ وہ اس ڈھیر میں سے حوالے کی کتابیں کیسے تلاش کر لیتے تھے! یہ ضرور ہے کہ اگر حوالہ تلاش کرنے میں دقت پیش آتی تھی تو قیاسی حوالے بھی دے ڈالتے تھے اور حافظے سے بھی کام لیتے تھے جس میں رد و بدل بھی ہو جاتا تھا۔ زود نویسی کے سبب اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ وزیر آغا گروپ سے ان کی وابستگی وفاداری بشرطِ استواری کی اچھی مثال ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر کی ابتدائی زندگی زیادہ ہموار نہیں گزری۔ انھوں نے رفتہ رفتہ ترقی کے مراحل طے کیے۔ چند سال اِدھر اُدھر قسمت آزمائی کے بعد لائبریری سائنس میں ڈپلوما حاصل کیا۔ پھر چند سال پنجاب یونیورسٹی لائبریری اور اس کے بعد پنجاب پبلک لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین رہے۔ یہیں کام کرنے کے دوران 1961ء میں ایم اے اردو کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ خوش قسمتی سے اسی سال اردو کا مضمون انٹرمیڈیٹ کلاسز کے لیے لازم قرار پایا، چنانچہ لیکچرر کی بہت سی اسامیاں مشتہر ہوئیں۔ پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہو کر ملتان میں لیکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہو گیا۔ ملتان کے رفقائے کار میں رچ بس گئے جہاں ایک اچھا ادبی ماحول موجود تھا۔ چند سال بعد ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہو گیا۔ وزیر آغا کے قریب آ گئے اور اس گروپ کے نمائندہ نقاد سمجھے جانے لگے۔ پھر ڈاکٹر وحید قریشی سے بھی تعلقات استوار ہو گئے اور پی ایچ ڈی کر لی۔ وزیر آغا ان کے ممتحن تھے۔ انھوں نے رپورٹ میں لکھا کہ ڈگری دے دی جائے لیکن مقالے میں کچھ ترمیمات کی جائیں۔ اس پر انھوں نے ضرورت سے زیادہ سخت ردِعمل کا مظاہرہ کیا اور اپنی مظلومیت کا افسانہ سنا کر احمد ندیم قاسمی کا قرب حاصل کر لیا اور پھر وزیر آغا کے مخالفین میں سرِفہرست آ گئے۔
عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر ایک دوسرے سے شدید مخالفت کے باوجود بعض معاملات میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے تھے۔ دونوں نے بہت زیادہ لکھا۔ دونوں لکھتے چلے جاتے تھے لیکن حافظے پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے اس لیے دونوں کی تحریروں میں خاصی کمی بیشی کا احساس ہوتا ہے۔ تحقیقی بنیاد دونوں کے ہاں زیادہ مضبوط نہیں۔ دونوں نے تنقیدی تحریروں میں طلبہ کے استفادے کو ہدف بنایا ہے جن سے طلبہ کو امتحانات کی تیاری میں مدد ملتی ہے اس لیے دونوں کو بہت شہرت ملی۔ چونکہ اردو میں اکثر تنقیدی تحریروں کی عمومی سطح زیادہ بلند نہیں اور اکثر نقاد اسی قسم کی تنقید لکھتے ہیں اس لیے ہمارے ان دونوں ڈاکٹروں کی تنقید کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ میرے ان دونوں دوستوں کو رواں جملے لکھنے کا سلیقہ آتا ہے اور طلبہ غلط کو صحیح سے الگ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس لیے ان کے نزدیک یہ سب بڑے نقاد ہیں۔ ایسی کتابوں سے امتحانات کے امیدوار خوب استفادہ کرتے ہیں اس لیے ان حدود کے اندر ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
انور سدید کے اسلوب میں پختگی ہے لیکن زیادہ توجہ سے پڑھا جائے تو سطحیت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ سلیم اختر کے ہاں تنقیدی تحریروں میں بھی طنز و مزاح کے عناصر ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اس لیے وہ خواندنی معلوم ہوتی ہیں مگر جملہ سازی عموماً ڈھیلی ڈھالی ہے۔ دونوں نے اردو ادب کی تاریخیں لکھی ہیں۔ سلیم اختر کی ’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘ بہت بکی اور اب ’مرورِ ایام‘ سے مختصر ترین کی بجائے خاصی ضخیم ہو چکی ہے۔ انور سدید کی ’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘ بھی سلیم اختر کی تاریخ کی موجودہ ضخامت کے مقابلے میں کسی قدر کم ضخیم ہے لیکن دونوں تناسب سے محروم ہیں اور ان میں حقائق کی اغلاط بھی کم نہیں ہیں۔ سلیم اختر کی ’تنقیدی دبستان‘ اور انور سدید کی ’اردو ادب کی تحریکیں‘ طلبہ میں بہت مقبول ہیں۔ شاید مستقبل قریب میں ان موضوعات پر بہتر کتابیں آ جائیں مگر فی الحال طلبہ کو انھی سے استفادہ کرنا ہوگا۔
٭…٭…٭