کم و بیش ربع صدی قبل پاکستان کی سیاست میں ایک ایسے نئے چہرے کو متعارف کروایا گیا جو اس سے پہلے سیاست میں آیا تھا نہ حکومت میں۔ اسکے خاندان کے لوگ بھی اقتدار کی راہداریوں سے دور ہی رہے۔ اس سیاستدان کو ملک میں برسوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے موروثی سیاست کے علمبرداروں کے مقابلے میں متوسط طبقے کے نمائندہ ، عوامی سیاستدان کے طور پر پیش کیا گیااور اس نے بھی پورے دو عشروں تک اس بیانیے کے ساتھ جدوجہد کی کہ ملک پر باری باری حکومتیں کرنیوالے بدعنوان سیاستدانوں کے مقابلے میں وہ ہی حقیقی نجات دہندہ ہے۔ اس نے انصاف کی فراہمی کو اپنا مطمح نظر بتایا اور دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا۔ اس نے عوام کو بتایا کہ موروثی سیاستدان کرپٹ، چور، لٹیرے ، ڈاکو اور خائن ہیں جن سے نجات پانا بے حد ضروری ہے۔ اس بیانیے کو عوام الناس میں خاصی پذیرائی ہوئی۔ خصوصاً نوجوان نسل کو عمران خان کی طرف سے نظام میں تبدیلی لانے ہر شخص کو یکساں انصاف اور ترقی کے مواقع دلانے کے دعوئوں نے اپنا اسیر بنا دیا۔ سیاسی میدان میں ابتداء میں اسے ناکامی اور مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن جب اس نے جانا کہ اقتدار کا حصول اس ’’ شریفانہ ‘‘ اندازِ سیاست سے ممکن نہیں ہے تو اس نے بھی اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کی اوراس تبدیلی کے باعث اس نے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دئیے۔ اس نے اپنے مخلص اور وفادار ساتھیوں کو چھوڑ کر سیاست کے روایتی کرداروں اور تجربہ کار کھلاڑیوں (الیکٹ ایبلز) کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ اس کا یہ حربہ کامیاب ہوا اور پھر قوم نے دیکھا کہ پے در پے ناکامیابیوں سے دوچار ہونے والا دیکھتے ہی دیکھتے عوام کا مقبول لیڈرشمار ہونے لگا ۔ لوگوں کی اکثریت نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور وہ آخر کار اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچ گیا۔ حکومت میں آنے کا اس کا یہ پہلا تجربہ تھا جس کیلئے اس نے کوئی ہوم ورک بھی نہیں کر رکھا تھا، چنانچہ اقتدار کا ہما اسکے سر بیٹھنے کے ساتھ ہی اسکے طور طریقے بھی بدل گئے۔ اس نے ا پنی ٹیم میں وہی لوگ شامل کیے جن کو وہ کرپٹ، بدعنوان اور خائن کہتا چلا آیا تھا۔ یعنی وہ لوگ جو موروثی سیاست دان کے علمبردار سٹیٹس کو کے حامی تھے۔ ان مہا تجربہ کار سیاستدانوں نے بڑی مہارت کے ساتھ اسے اپنے شیشے میں اتارا اور اسکے گرد یوں گھیرا تنگ کر دیا کہ وہ انہی کے حصار میں آسودگی محسوس کرنے لگا۔
1958ء میں اس وقت کے کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع جنرل ایوب خان نے اپنے مربی سکندر مرزا کو اقتدار سے باہر کر کے خود ا س پر قبضہ جما لیا تو جو بہت سے اہلِ سیاست اسکے ہم خیال بنے ان میں اکثریت انہی جاگیرداروں، زمینداروں، خانوں، ٹوانوں، نوابوں اور پیرزادوں کی تھی پھر اسکے بعد تو گویا قسمت کی دیوی ان پر مسلسل نثار ہی ہوتی چلی آئی ہر دور کے حکمران کے ساتھ یہ مفاد پرست سیاستدان اقتدار میں حصہ دار بنائے جاتے رہے۔ حکومت کسی فوجی جرنیل کی ہو یا سول ڈکٹیٹر کی۔ یہ ہر دورِ حکومت میں شریک و سہیم رہے چنانچہ جب کسی منتخب حکومت کا خاتمہ ہوتا تو یہ اقتدار کی سول کرسی سے اچھل کر فوج کے ساتھ جا ملے۔ وہاں سے حسبِ ضرورت کسبِ فیض کرتے اور پھر جب عام انتخابات کے نتیجے میں کوئی حکومت بنتی تو یہی لوگ اس میں شامل ہو جاتے۔
کسی بھی حکومت کے جانے کا انہیں کبھی ملال نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ہر آنیوالی حکومت میں وہ کسی مشکل کے بغیر شامل ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے جب عمران خان کی جماعت مقبولیت حاصل کرنے لگی اور اسکی پتنگ آسمانوں کی طرف اُڑنے لگی تو یہ لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے چھلانگیں لگا کر تحریکِ انصاف کی کشتی میں سوار ہو گئے۔ آج عمران خان کے اردگرد جو اہم شخصیات ہمیں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں تو یہ وہی ہیں جن کا تحریکِ انصاف کے بانی ارکان میں شمار نہیں ہوتا۔ یہ پیراشوٹرز ہی اب عمران خان کے یمین و یسار ہیں اور فیصلہ سازی کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے۔ عمران خان اب اپنے وفادار ساتھیوں سے محروم ہو کر انہی کے پھیلائے جال میں پھنس چکے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انہیں اس کا ادراک نہیں ہے، وہ ہر آنیوالے دن اس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں جس سے نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ فوج کے مقتدر ادارے کیخلاف انہوں نے جو رویہ اختیار کیا وہ کسی سیاستدان کا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ سیاستدان کبھی بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں مارتا۔ وہ ہر قدم دیکھ بھال کر اٹھاتا ہے وہ اختلاف بھی کرتا ہے تو اسے دشمنی کی سطح پر نہیں لے جاتا۔ وہ لڑائی کے باوجود واپسی کا رستہ بھی کھلا رکھتا ہے۔ وہ کبھی اپنے آخری پتے ابتدا ہی میں نہیں کھیلتا بلکہ انہیں مشکل وقت کیلئے محفوظ رکھتا ہے لیکن حیرت ہے کہ ربع صدی پر محیط اپنے سیاسی سفر میں اس نے سیاست کا کوئی گُر نہیں سیکھا۔ مکالمہ سیاست کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ سیاستدان مکالمے سے کبھی گریز نہیں کرتا۔ خصوصاً جہاں جمہوری نظام قائم ہو جہاں جمہوریت کی باتیں ہوتی ہوں وہاں جمہوری رویے اپنا کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ غیر جمہوری طرزِ عمل کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ لانگ مارچ کا فیصلہ کرنے سے قبل عمران خان کو اسکے تمام پہلوئوں کا بغور جائزہ لینا چاہیے تھا کہ اسکی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں اور ناکامی کے کتنے اور پھر خدانخواستہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر ان کا ردّعمل کیا ہو گا۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ الیکشن کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن ابھی تک قوم کو یہ نہیں بتا سکے کہ انتخابات کے انعقاد کے بعد بالفرض وہ کامیاب ہو کر اقتدار بھی حاصل کر لیتے ہیں تو اس صورت میں انکے پاس ملک کو درپیش سنگین مسائل کے حل کا روڈمیپ کیا ہے وہ ان مسائل سے کس طرح عہدہ براء ہونگے اور اب تو جس قسم کا ماحول انہوں نے بنا دیا ہے اس میں اوّل تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ ہی نہیں سکتے لیکن اگر وہ عوامی نصرت اور تائید کے بل بوتے پر حکومت بنا بھی لیتے ہیں تو یہ سوال بھی انکے سامنے چیلنج بن کر کھڑے ہونگے کہ فوج کیساتھ ان کا رویہ کیا ہو گا، امریکہ سمیت دوسرے ممالک کیساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی جن کیخلاف وہ الزامات کے ذریعے عوام میں نفرت اُبھارتے رہے ہیں۔ لانگ مارچ ابھی جاری ہے نجانے کب تک جاری رہتا ہے لیکن یہ سوالات بہرحال ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ تاہم غالب گمان یہی ہے کہ یہ زیادہ دن تک جاری نہیں رہ سکے گا ۔