محمدعبداللہ حمید گل سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل کے فرزند ارجمند ہیں۔وہ جنرل حمید گل جو اپنے نام ومقام کے اعتبار سے ایک مخصوص حیثیت رکھتے تھے۔جذبہ حب الوطنی سے سرشار ،بے خوف نڈر اور خلوص واخلاص میں ڈوبا ہو اایک انسان ان کے اندر دیکھنے کو ملتا تھا۔دشمن سے نبرد آزما ہونا اور رہنا ان کی سرشت میں شامل تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سے کئی گناہ بڑی قوت اور دنیا کی سپر پاور کو پاش پاش کردینے میں ان کا بڑااہم اور مرکزی کردار تھا ،قومی وبین الاقوامی سوچ کی حامل قوتیں آج بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنائے دکھائی دیتی ہیں مگر ثابت قدمی وبے باکی میں اپنا ثانی نہ رکھنے والی یہ منفرد شخصیت ہر پلیٹ فارم پر نہ صرف اس کا جواب دینے کو تیار رہتی تھی بلکہ ہر مقام پر اس کا بھر پور جواب دیتے دکھائی وسنائی دیتی تھی۔وہ جنرل حمید گل جن کے ساتھ چند لمحات گزار کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے قرون اولیٰ کے کسی نوجوان سے مڈ بھیڑ ہوگئی ہو اور وہ ہر طرح کے خوف وخطر سے بے نیاز دین اسلام اور ملک وملت کی خاطر کٹ مرنے کو تیار ہو۔وہ حمید گل جن کی پیش گوئیاں آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہیں ،بے شک جنرل حمید گل دنیا کو پانچواں بڑا دماغ مانا جاتا ہے ،ایک مرتبہ جنرل حمید گل سے ایک پروگرام میں میزبان نے سوال کیا تھا۔”جنرل صاحب وہ کون سا سن ہوگا جب آپ کی بصیرت کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل ہوگا ؟
جنرل حمید گل نے کسی توقف کے بغیر جواب دیا ”جب افغانستان سے پسپا ہوتے ہوئے امریکہ کی پشت دیکھیں گے“پھر یہ مناظرساری دنیا نے دیکھے۔ جنرل حمید گل آج اس دنیا میں نہیں مگر ان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے ،آج آپ کے مشن کو آپ کے صاحبزادے محمد عبداللہ حمید گل بڑی جانفشانی سے جاری وساری رکھے ہوئے ہیں۔محمد عبداللہ حمید گل پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں ،آپ بھی اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے ہرپلیٹ فارم پر ،اسلام اور پاکستان کی بات کرتے ہیں۔راقم الحروف کا آپکے ساتھ برادرانہ رشتہ ،نظریاتی تعلق پندرہ ،سولہ سالوں پر محیط ہے۔آپ ایک محب وطن اور سچے عاشق رسول ہیں۔یہ کہنا کسی صورت غلط نہ ہے کہ آپ کی رگوں میں خون کی جگہ پاکستان کی محبت گردش کرتی ہے۔ محمد عبد اللہ حمید گل میں جنرل حمید گل کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔وہی شیر کی دھاڑ جس کی ہیبت سے دشمنوں کے کلیجے منہ کو آجاتے ہیں۔دشمنوں کی صفوں میں ہلچل برپاکرنے والا جس کے انداز تخاطب سے عالم کفر لرزتا ہواور اپنوں کے لیے بریشم کی طرح نرم۔
مصنف محمد عبداللہ حمید گل ایک بہترین مقرر ہیں جنہیں عصر حاضر کا شورش کاشمیری کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا ،آغا شورش کاشمیری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب بولتے تھے تو سننے والوں پر سکوت طاری ہوجاتا تھا۔ سامعین کو لگتا تھا کہ اگر انہوں نے ذرا سی جنبش کی تو آغا شورش کے الفاظ کا سحر ٹوٹ جائے گا ،محمد عبداللہ حمید گل کو سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے آغا شورش کاشمیری پھر سے جی اٹھے ہیں۔وہی جوش خطابت ،وہی طمطراق ،وہی انداز جو سننے والوں پر سحر کردے۔آپ ایک بہترین لیڈر ہیں جنہوں نے ہمیشہ ملک وقوم کے مفاد کی بات اور آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچا ہے۔
مصنف ایک سینئر کالم نگار اور تجزیہ نگار ہیں۔مصنف کی تحریروں میں کی علم کی گہرائی ،ادب کی جولانی ،قلم کی روانی اور تاثیر یکساں طور پر پائی جاتی ان کے کالمز معاشرے میں دوھرے معیار اور دوغلے پن کو خطرناک ثابت کرتے ہوئے اس کی سنگینی کا احساس دلاتے ہیں۔اسی طرح فرقہ واریت کا عفریت جو ہمارے معاشرے کو ہڑپ کررہا ہے ،اس کے بارے میں بھی ان کا احساس قلم حرکت میں آتا ہے اور وہ اس کی مذمت اور خطرناک نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ان کا قلم صرف پاکستان کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ عالم اسلا م میں جہاں بھی خون بہہ رہا ہے یا جہاں بھی مسلمان ظلم کے خلاف برسرپیکار ہیں ،ان کے بارے میں بھی ان کے کئی کالمز اشک آور نظر آتے ہیں۔زیر نظر کتاب ”افکارگل“مصنف کے قومی اخبارات میں شائع ہونیوالے کالمز میں سے 53کالمز کا انتخاب ہے جوکہ پہلا حصہ ہے۔کتاب کا سرورق مصنف کا اپنے والدین سے والہانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس پر مصنف نے اپنے ساتھ اپنے مرحوم والدین کی تصاویر لگائی ہے۔بہترین امپورٹڈکا غذ ،اعلیٰ ترین طباعت نے کتاب کو مزید خوبصورت بنادیا ہے۔مصنف کی کتاب سے ،کرونا وباءکے حوالے سے اپنے ایک کالم ”سب سائنس وٹیکنالوجی فیل اللہ ہی سپر پاور ہے“ میں لکھتے ہیں:”آج ہرانسان اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے رب سے معافی کا طلبگار ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ شاید خدا اپنے بندوں سے ناراض ہے اور انسانیت کے گناہ حد سے زیادہ تجاوز کرگئے ہیں قریباً سبھی مذہب کے لیے اللہ نے عبادت گاہوں کے دروازے بند کردئیے گئے ہیں۔لوگ اپنی رسومات کو فراموش کرتے ہوئے مشینوں سے تدفین کررہے ہیں۔دنیا میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی سے نہ کوئی تعزیت کررہا ہے اور نہ کوئی گلے لگ کررو رہا ہے۔قدرت سے بغاوت کرنے والے ممالک اٹلی ،فرانس،سپین کے ہسپتال لاشوں سے بھرے ہوئے ہیں ،تدفین کرنے والی کمپنیوں کے باہر ایسے رش دکھائی دے رہا ہے جیسے سپر مارکیٹوں میں لوگوں کا ہجوم دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ ہے ایک انسان کی اصل حقیقت کہ وہ قدرت سے بغاوت کر بیٹھا تھا اور وہی سائنسی ترقی ہے جس کے بل بوتے پر سرکشی اور نافرمانی کی حدوں کو پھلانگ دیا گیا۔جس نے ٹیکنالوجی کو اس نے عروج پر پہنچا دیا کہ دنیا کی سرحدیں بے معنی ہوگئیں اور انسانیت کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اس نے پوری قدرت کو اپنی مٹھی میں کرلیا۔قوم عاد،قوم ثمود پر عذاب بھی اسی اپنی کوتاہیوں اور رب کے احکامات ست روگردانی کے نتیجے میں ان پر نازل کیے گئے تھے۔
کرونا بھی عذاب الٰہی ہے جس نے میرا جسم ،میری مرضی کا نعرہ لگانے والوں کو دکھادیا ہے کہ یہ پوری دنیا بھی اسی قادر مطلق کی ہے اور اس میں رہنے والے بھی اسی کی مرضی کے تابع ہیں۔کائنات کے اصل مالک نے انہیں ان کی اوقات یاد دلادی ہے ،کہ سب ٹیکنالوجی فیل ،سپر پاور صرف اللہ ذات ہے جو بے شک ہر چیز پر قادر ہے۔کس طرح ایک چھوٹے سے قدرتی وائرس سے دنیا مشرق سے مغرب ، شمال سے جنوب تک کانپ اٹھی ،اپنے جینے اور مرنے کی فکر میں گھل گھل کر اس کی طرف پلٹ رہی ہے۔سپین جہاں مسلمانوں کا نام و نشاں مٹا دیا گیا، انہیں گاجر مولیوں کی طرح کاٹا گیا، مسجدوں کو تالے لگا دئیے گئے۔ آج سپین کی فضاﺅں میں 500سال بعد اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ اٹلی ، فرانس ، سپین ، جرمنی یورپ کا معاشی مرکز کہلوانے ملکوں میں اللہ کی کتاب قرآن پاکی بے حرمتی کے دلسوز واقعات بھی ہوتے رہے۔ ہمارے بنی ﷺکی شان میں گستاخی کی گئی اور وہاں کی حکومتیں مسلمانوں کو حقوق انسانی کا درس پڑھاتی رہی۔ مقبوضہ کشمیر کا بھارت نے لاک ڈاﺅن کیا تو کسی امیر ملک نے اتنی جرا¿ت نہیں دکھائی ہندوستان پر دباﺅ ڈال کروہاں سے کر فیو ہی اٹھا لیا جاتا۔ ان مظلوم کشمیریوں کی سسکیوں ، آہوں نے آخر حشر اٹھا ہی دیا ہے۔ وہ قومیں جو قدرت کے اصولوں کو زندگی بھر پامال کرتی آئی ہیں وہ آج پامال ہونے کی راہ پر ہیں۔“کتاب کا ایک ایک کالم علم وادب کا خزینہ ہے۔حقیقت تو یہ کہ مصنف ایک کالم نگار نہیں بلکہ ایک حقیقت نگار ہے جنہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں معاشرے کی حقیقتوںکو لفظوں کا پیرہن پہنا دیا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف کو مزید کامیابیوں وکامرانیوں سے نوازے،زور قلم اور زیادہ کرے۔آمین۔