1948ءمیں افغان حملے (30ستمبرکالم)کو شاندار منصوبہ بندی سے ناکام بنانے کے بعد جنرل محمد اکبر خان کو کشمیر بھیج دیا گیا۔وہاں جنوری 1949ءمیں جنگ بندی ہو گئی ۔جنرل محمد اکبر خان اپنے طور پر خفا تھا کہ اسے مکمل طور پر لڑنے کا موقع نہیں دیا گیا۔انھی دنوں ایک دفعہ پھر خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ افغانستان بلوچستان پرمزید حملے کی تیاری کر رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے گڈریے جنھیں ’پوندے‘کہا جاتا تھاغربت کی وجہ سے ہر سال سردیوں میں پاکستانی علاقے میں آجاتے تھے۔کیونکہ یہاں ایک تو سردی کم ہوتی ہے اور دوسرااچھی چراگاہیں بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ انھیں سرحد پر کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگ سمگلنگ کرتے ، یہاں آکر چوریاں کرتے اور موقع ملنے پر لوٹ مار بھی کر لیتے ۔ اسی دوران کچھ پوندوں کو لُوٹ مار اور ڈاکا زنی کرتے ہوئے ہمارے سرحد ی سکاو¿ٹس (نیم عسکری تنطیم) نے پکڑ لیا۔ان پوندوں نے اپنی حکومت اور فوج سے مدد مانگی۔
بات اوپر تک گئی تو کابل افغان مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ قلعہ سپن بولڈک جو کہ پاکستان کی سرحد کے بالکل نزدیک ہے کو افغان فوج کا ہیڈ کوارٹرز بنا کر پاکستان پر حملہ کیا جائے۔اس ہیڈ کوارٹرز کے تحت افغان قبائل کے لشکر بھی جمع کیے جائیں اور انھیں مختلف مقامات پر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے ۔ریڈیو کابل ان دنوں پاکستان کے خلاف بہت گندی زبان استعمال کرتا اور پاکستان کے خلاف گالیا ں وغیرہ دیتا رہتا۔ مسلسل یہ خبریں ملنے کی وجہ سے اب ہمارے جی ایچ کیو نے اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف توجہ دی تو نظرایک دفعہ پھر جنرل محمد اکبر خان پر پڑی جوایک سال پہلے افغان حملے سے بہت مو¿ثر اندازمیں نبٹ چکا تھا، لہٰذا اسے فوری طور پر کشمیر کا محاظ چھوڑ کر کو ئٹہ کمانڈ سنبھالنے کا حکم دیا گیا۔ساتھ ہی اُسے افغانستان کے ممکنہ حملے کی تفصیلات دے کر اس حملے سے نبٹنے کا حکم دیا گیا۔
کوئٹہ پہنچ کر جنرل محمد اکبر خان نے اپنے تمام آفیسرز کی کانفرنس بلائی۔سب آفیسرز کی متفقہ رائے تھی کہ یہ سارا مسئلہ ماو¿نٹ بیٹن پیدا کر رہا ہے ۔وہ کشمیر سے پاکستانی آفیسرز نکال کر کشمیر کا محاذ کمزور کر رہا ہے تاکہ بھارت قبضہ کر سکے۔اسی لیے مختلف مسائل کے بہانے کشمیر سے آفیسرز کو باہر پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ افغانستان کی مالی حالت بہت خراب تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک میجر کی تنخواہ محض 36روپے تھی۔افغان فوج اس قابل نہ تھی کہ وہ پاکستان پر حملہ کر سکے۔ یہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا بھارت اور برطانیہ کی ایما پر کیا جا رہا تھا۔ اس مدد کے سہارے افغان فوج اپنی سابقہ شکست کا بدلہ بھی لینا چاہتی تھی۔ افغانستان کی مالی اور معاشی بری حالت کے مد نظر بھارت اسے سبز باغ دکھا رہا تھاکہ پاکستان پر حملہ کر کے وہاں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ پاکستان کی بد قسمتی دیکھیں کہ بھارت اور افغانستان کی یہ پالیسی آج تک جاری ہے۔
بہر حال 13ستمبر1950ءکی صبح افغانی قلعہ غلام نبی کے قریب افغانستان کے کماندر انچیف فیلڈ مارشل عبدالغفور ارباب نے مع اپنے سنیئر آفیسر ز کے افغان جھنڈے کو سلامی دی۔ اس تقریب میں ہمارے بھی کچھ باغی قبائلی سردار شامل ہوئے۔ وہاں جمع ہونے والے لشکر کی تعداد 70ہزار تک بتائی گئی۔ اس لشکر کے سامنے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز اور شرانگیزتقریریں کی گئیں۔ اس لشکر میں شامل پاکستانی باغی غدار سرداروں کو باور کرایا گیا کہ پاکستان کے خلاف جنگ جہاد ہے۔ 15ستمبر1950ءتک پندرہ ہزار افغان فوج اور آٹھ توپیں سپن بولڈک پہنچ گئیں۔ ستر ہزار کا لشکر پہلے ہی وہاں موجود تھااس لشکر کی تعداد80ہزار سے زیادہ ہو گئی اور یہ لشکر پاکستان پر حملے کے لیے تیار ہوگیا۔ اسی دوران’ قلعہ شروبا‘کے قرب و جوار سے ایک افغان لشکرسو گز تک ہماری سرحد کے اندرآگیا۔یہاں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر قبضہ کر کے وہاں قلعہ بندی سی بنا لی اور ایک اونچا مینار بھی بنا لیا جس سے اردگرد کا علاقہ دور تک نظر آتا تھا۔
اس علاقے میں ابھی تک سرحدوں کی نشان دہی نہیں ہوئی تھی۔ہمارے جوانوں نے حملہ کر کے اس قلعہ اور مینار کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا، لہٰذا 18اور 19 ستمبر کی رات کو کچھ سکاو¿ٹس اور انجینئر بٹالین کے لوگ وہاں گئے اور بارود سے سب کچھ اڑا دیا ۔اس حملے میں افغان فوج کے کچھ لوگ بھی پکڑے گئے۔ ان میں ایک اہم قیدی افغان آرمی کے کمانڈر انچیف فیلڈمارشل عبدالغفور ارباب کا اے ڈی سی اور مشیرِ خاص بھی پکڑا گیا جو اس قلعے میں معائنہ کے لیے آیا تھا۔ اس کی جب تلاشی لی گئی تو اس کے پاس سے پاکستان پر حملے کا پلان بر آمد ہوا۔ اس پلان سے تمام ضروری معلومات مل گئیںجن میں سے ایک اہم خبر یہ تھی کہ لشکر خوراک اور پانی کی سخت قلت سے دوچار تھا۔
قلعہ سپن لولڈک ایک چٹیل میدان ہے ارد گرد تمام زمین شور والی ہے۔ قلعہ کے پاس ایک قدرتی جوہڑہے جہاں بارش کا پانی وغیرہ جمع رہتا ہے۔ ا س کے علاوہ ارد گرد پانی کا کوئی ذریعہ نہیں، لہٰذا تمام ٹروپس بشمول آفیسرز اور کمانڈر انچیف یہی پانی پینے پر مجبور تھے جس سے سب لوگ پیچس اور مروڑ کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے۔ ہمارے سراغ رسانوں نے اطلاع دی کہ لشکر بیمار ہے اور بیماری کی وجہ سے سولجرز میں مایوسی بھی ہے۔ اس موقع پر سکند مرزا جو کہ اس وقت ڈیفنس سیکرٹری تھا کے زرخیز دماغ نے ایک نئی قسم کی منصوبہ بندی کی جو وہ پہلے سرخ پوشوں پر آزما چکا تھا۔ اس نے جنرل اکبرخان کے ساتھ مل کر قلعہ سپن بولڈک میں جاسوس بھیجے جنھوں نے وہاں جاکر مشہور کر دیا کہ Nescafe Coffee پینے سے شورے والا پانی معدے پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ Nescafe Coffee وہاں تو ملتی نہیں تھی، لہٰذا کمانڈر انچیف نے حکم دیا کہ کافی فوری طور پر کوئٹہ سے سمگل کی جائے۔کافی سمگل کی گئی اور سب آفیسرز نے دل کھول کر پی۔لیکن کافی پیتے ہی سب لوگ سخت قسم کے پیچس اور پیٹ میں مروڑ کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے جوبالکل ہی ناقابل برداشت تھی۔
یہاں تک کہ کافی پینے والے لوگ اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔ سب کی بڑی بری حالت تھی، لہٰذا سنیئر آفیسرز تو فوری طور پر علاج کے لیے کابل چلے گئے ۔باقی وہاں تڑپتے رہے کچھ ٹروپس حکما کی تلاش میں قلعہ چھوڑ کر ارد گرد کے گاو¿ں میں چلے گئے۔ قبائل کے سرداروں نے افغان فوج کے آفیسرز پر بد ظنی کا اظہار کیا اور اعتراض کیا کہ قبائلی رسم و رواج کے مطابق جہاد کے لیے دعوت دینے والوں کا فرض ہے کہ وہ سب کو ہتھیار اورکھانا مہیا کریں مگر یہاں سارے آفیسرز ہمیں چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں اور لشکریوں کا کوئی پرسان ِ حال نہیں، لہٰذا وہ سب بھی مایوس ہو کر وہاں سے چلے گئے۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ پاکستان نے کافی کے ڈبوں میں اپنے پلان کے مطابق ’جمال گھوٹا‘ ملا دیا تھا۔افغان آفیسرز شورے والے پانی سے کافی کے نام پر جمال گھوٹا پیتے رہے اور یوں معذور ہو گئے۔ اس طرح اس جنگ کا ارادہ ہی ختم ہو گیا۔