اسلام میں استاد کو بہت زیادہ مقام حاصل ہے ۔ معلم کی ذات ہی علمی ارتقا سے وابستہ ہے ۔ نئی نسل کے مستقبل کی تعمیر کے سلسلے میں استاد کی مثال ایک مالی اور باغبان کی سی ہے ۔
قرآن مجید میں ”یعلم الکتاب والحکمة “ کہ کر حضور نبی کریم ﷺ کی شان بیان کی گئی ۔ خود نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ علامہ محمد اقبال رحمة اللہ تعالی علیہ استاد کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” استا د دراصل قوم کے محافظ ہیں ۔ کیونکہ آنے والی نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک و قوم کی خدمت کے قابل بناناانہی کے ذمہ ہے ۔ سب محنتوں سے اعلی درجے کی محنت اور کار گذاریوں میں سب سے زیادہ قیمتی کارگذاری ملک کے معلموں ہی کی ہے ۔ معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے ۔ کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے “۔
معلم معاشرے میں علم پھیلانے کا ذریعہ ہے ۔ لیکن اس کے علم سے صرف وہی فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے دل استاد کے ادب و احترام سے مالا مال ہوں ۔ کیونکہ ” ادب ایک درخت ہے ، اور علم اس کا پھل ۔ اگر درخت ہی نہ ہو تو پھل کیسے لگے گا “۔
امیر رنگریز رحمة اللہ تعالی علیہ ” برکة العلم “ میں استاد کی تعظیم کے بارے میں فرماتے ہیں :” شاگرد کو چاہیے کہ خود کو ایسا جاہل سمجھے گویا وہ پہلے روز استاد کے پاس آیا ہے ۔ اور یہ سمجھے کہ جو بھی علمی فائدہ اسے پہنچا ہے وہ استاد نے ہی پہنچایا ہے ۔ تا کہ تعلیم کی برکات زندگی میں اس کے ساتھ باقی رہیں ۔ “ پھر فرمایا : ” اپنے استاد کے ساتھ بے ادبی سے مت پیش آﺅ کیونکہ اس سے ایمان کے زائل ہونے کا خطرہ ہے ۔ کیونکہ استاد اللہ تعالی کے خلیفہ کا جانشین ہے ۔ اور اس کی بے ادبی اصل میں حضور نبی کریم ﷺ کی بے ادبی ہے “۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں :” جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے مجھے بیچے ، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے “۔ مزید فرمایا : ” علم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو ۔ اور اگر ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کے لیے کھڑے ہو جاﺅ ۔ “ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک جگہ نماز جنازہ پڑھائی پھر ان کی سواری لائی گئی۔
حضرت عبدا للہ بن عباس نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی ۔ حضرت زید نے کہا اے ابن عم رسول اللہ ﷺ آپ ہٹ جائیں ۔ تو انہوں نے کہا علما ءاور اکابرین کی عزت اسی طرح کرنا چاہیے ۔