پاک فضائیہ کے میانوالی میں واقع تربیتی فضائی اڈے پر ہونے والا دہشت گردوں کا حملہ، جسے ہماری سکیورٹی فورسز نے ناکام بنادیا، اس گزشتہ ہفتے کے دوران پیش آنے والے چار اہم حملوں میں سے ایک ہے۔ دیگر تین حملے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہوئے۔ ان حملوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد عناصر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں اور جب تک کسی بڑی کارروائی کے ذریعے ان کی بیخ کنی نہیں کی جاتی تب تک امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق رہیں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ صورتحال امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کودنے کی وجہ سے پیدا ہوئی اور پاکستان نے اس جنگ کے لیے امریکا اور اس کے دیگر اتحادیوں سے کہیں زیادہ قیمت چکائی اور یہ سلسلہ قابلِ قیاس مستقبل میں تھمتا دکھائی نہیں دے رہا۔
میانوالی ائیربیس پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک ذیلی اور معاون تنظیموں اور عناصر کو کس ملک کی پشت پناہی اور آشیرباد حاصل ہے۔ مسلح افواج کے شعبہ¿ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، میانوالی بیس پر حملہ کرنے والے تمام9دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔ حملے کی وجہ سے پہلے سے گراو¿نڈ کیے گئے 3 طیاروں اور فیول باو¿زر کو نقصان پہنچا لیکن سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔ مشترکہ کلیئرنگ اور کومبنگ آپریشن کی تکمیل پر آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں بتایا کہ حملے میں پی اے ایف کے فنکشنل آپریشنل اثاثوں میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ آپریشن کا فوری اور پیشہ ورانہ اختتام امن دشمنوں کے لیے یاد دہانی ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج چوکس رہتی ہیں اور وہ کسی بھی خطرے کی صورت میں وطن کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔
اس حملے سے ایک روز پہلے ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت اور گوادر میں سکیورٹی فورسز پر حملے کیے گئے۔ ڈی آئی خان میں ہونے والے حملے میں پولیس کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں پانچ راہ گیر جاں بحق ہوئے جبکہ چوبیس زخمی ہوگئے۔ اسی طرح ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان واقع سرحدی علاقے میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے حملے میں ایک اہلکار شہید ہوگیا۔ لکی مروت میں فوجی آپریشن میں دو اہلکار شہید ہوئے۔ اور پھر گوادر کے علاقے پسنی سے اورماڑہ جانے والی سکیورٹی فورسز کی دو گاڑیوں پر دہشت گردوں نے گھات لگا کر فائرنگ کی جس سے 14 فوجی شہید ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور اس گھناو¿نے فعل کے مرتکب افراد کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
2021ءمیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد جب سے معاملات افغان طالبان کی عبوری حکومت کے ہاتھ میں آئے ہیں تب سے بالعموم افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک اور بالخصوص پاکستان امن و امان کے حوالے سے مسائل کا شکار ہیں۔ طالبان کی عبوری حکومت کی جانب سے بیانات کی حد تک تو کئی بار کہا جاچکا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغان طالبان نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ اور اس کی ذیلی اور معاون تنظیمیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دکھائی دیتی ہیں۔ مذکورہ بالا تمام واقعات میں سے گوادر میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کو چھوڑ کر باقی واقعات میں ٹی ٹی پی یا اس سے وابستہ تنظیمیں ذمہ دار ہیں جبکہ گوادر حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کی۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اپنے ہاں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو باہر نکال رہا ہے ہماری سکیورٹی فورسز کو زیادہ چوکنا اور مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان سے ملحق سرحدی علاقوں پر زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ عبوری افغان حکومت پاکستان سے نکالے جانے والے افغانیوں کی واپسی پر نہ صرف ناخوش ہے بلکہ اس حوالے سے کابل کی جانب سے باقاعدہ غصے کا اظہار بھی کیا جاچکا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا باہمی تعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ موجودہ صورتحال میں ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کی جو کارروائیاں کی جائیں انھیں افغان طالبان کی عبوری حکومت کی مکمل نہیں تو جزوی یا خاموش تائید حاصل ہو۔
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے کے لیے سکیورٹی فورسز نے تو یقینا اپنا کردار ادا کرنا ہی ہے لیکن اس سلسلے میں سیاسی قیادت کو بھی سرگرم ہونے کی ضرورت ہے تاکہ شدت پسندی اور تخریب کاری جیسے موضوعات کو قومی سطح پر بحث مباحثے کا حصہ بنا کر عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کسی بھی طرح امن و سلامتی کے حق میں نہیں ہیں اور ان عناصر کی سرکوبی کے لیے پوری قوم کو متحد اور یکسو ہونا پڑے گا۔ آئندہ چند ہفتے میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہونے کو ہیں اور اس وقت میں دہشت گردی کے واقعات کا ایک تسلسل کے ساتھ ہونا ریاست کے مسائل کو کئی گنا بڑھا سکتا ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا جاسکے۔