چین میں عالمی اقتصادی راہداری کی 10ویں سالگرہ
حرفِ قلندر....احمد خان
Ahmadkhan9421@yahoo.com
اس وقت غزہ اور اسرائیل کے لڑائی نے پوری طرح سے تمام شعبہ ہائے زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے خطے میں وقوع پذیر ہونے والے اہم قومی اور عالمی معاملات نظروں سے اوجل ہو رہے ہیں اس کی مثال ایک بہت بڑا واقعہ بی ار ائی عالمی اقتصادی راہداری کی دسویں سالگرہ کے موقع پر 130ممالک اور 30 ارگنائزیشنوں کا اہم اجلاس ہے، چینی صدر شی جن پنگ کے بنائے ہوئے ڈیزائن پر 10 سال میں حصہ دار ممالک نے جو اہداف حاصل کیے ان پر بھی بات کی گئی اور بقیہ اہداف جن پر ابھی کام مکمل نہیں ہوا ان کی رفتار کے کم یا زیادہ ہونے پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی اور عالمی اقتصادی راہداری کو جلد مکمل کر کے دنیا میں تجارت کی ترقی کے ایک نئے سفر کے آغاز کے حوالے سے چین نے اپنے عزائم کا اظہار کیا اس کے ساتھ ساتھ وہاں پہ موجود چینی صدر نے واضح طور پر کہا کہ چین انسانی ترقی پر یقین رکھتا ہے اور انسانیت کی ترقی کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں اور سرمایہ صرف کر کے ہی انسانی ترقی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ملک کے اندر عملا کروڑوں لوگوں کو غربت کے سطح سے اوپر اٹھا کر خوشحالی کی طرف لوٹانے کی عملی مثال بھی قائم کی ہے ، اسی اجلاس کا ایک اہم ترین ایونٹ تھاروسی صدر پوٹن کا وہاں آنا اور نہ صرف وہاں آنا بلکہ تین دن قیام بھی کرنا، پوٹن نے نہ صرف یہ کہ چائنہ کے عالمی اقتصادی راہداری منصوبے کی مکمل پشت پناہی اور ساتھ دینے کا ثبوت دیا بلکہ شی جن پنگ اور پوٹین دونوں راہنماو¿ں نے مشرق وسطی کے حالیہ واقعات پر امریکی کردار پر کھلے عام تنقید کی چینی راہنماو¿ں نے روس سے گیس پائپ لائن کے منصوبے پر بھی بات کی جس کے حوالے سے پوٹن نے اپنی آمادگی کا اظہار کیا، پوٹن کا چین کے اس بیلٹ روڈ انیشیٹو کی دسویں سالگرہ کے موقع پر بیجنگ میں تین روزہ طویل قیام اور اس موقع پہ ان کو ملنے والا غیر معمولی پروٹوکول اس سب نے دنیا کی انکھیں کھول دی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ صرف اسی پر بس نہیں ہے بلکہ پوٹن نے غزہ میں ہونے والی بمباری پر بھی اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا، مائن الیون کے بعد دنیا بھر خصوصاً ایشیا میں پیدا ہونیوالے جنگی ماحول کی وجہ سے تقسیم بڑھ رہی ہے اور تمام ممالک جو دنیا میں اپنے جنگی جنون کے زیرِ اثر کمزور ملکوں کو اگے ترقی ملنے میں اور مظلوم قوموں کو ازادی دینے میں مجرمانہ رکاوٹ بن رہے ہیں ان کے لیے روس اور چائنہ ایک روشنی کی کرن اور ایک کھلی کھڑکی کے طور پر سامنے ارہے ہیں ایسے میں کمزور قوموں کا چائنہ اور روس کے ساتھ اکٹھے ہونا ایک فطری سا عمل ہے امریکہ اس معاملے میں اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا شکار ہے لیکن یاد رہے کہ یورپ کے اکثر ممالک امریکی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان رویوں سے فاصلے پر رکھنا چاہتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ چائنہ کی اس BRI کی دسویں سالگرہ کی تقریبات میں بہت سارے یورپین ممالک آکر شریک ہوئے عرب و ممالک بھی دنیا میں جنگوں اور تنازعات سے نکلنا چاہتے ہیں ایران اور سعودی عرب کی صلح اور اس میں چائنہ کا متحرک کردار ہی اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے اسی طرح دیگر عرب ممالک نے چائنہ اور روس کے ساتھ اپنے سیاسی سفارتی اور تجارتی تعلقات میں عملا اضافہ کر کے اس کا عملی ثبوت دے دیا ہے دنیا میں بڑھتی ہوئی تقسیم اور چائنہ اور روس کے جھنڈے کے نیچے اتے ہوئے یورپی اور عرب ممالک ہمیں کیا پیغام دے رہے ہیں ہمیں یہ سب دیکھنا ہوگا اور اس کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی متحرک خارجہ پالیسی مرتب کرنا ہوگی یاد رہے کہ اس کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم شریک تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایک نگران وزیراعظم ہیں جن کو کچھ وقت کے لیے نامزد کیا گیا لیکن چونکہ وہ ایسی ریاست کے وزیراعظم تھے کہ جس کا عالمی اقتصادی راہداری میں ایک بنیادی کردار ہے اور اس ریاست میں شروع ہونے والا سی پیک کا منصوبہ عالمی اقتصادی راہداری کی صراحی میں گردن کی حیثیت رکھتا ہے ان کو وہاں غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا ان کو ارمچی کے انڈسٹریل زون کا دورہ بھی کروایا گیا اور پاکستان اور چائنہ نے اپنے تعلقات کے حوالے سے دوبارہ سے ان کی بہتری اور ان کے اگے بڑھائے جانے کے عزم کا اظہار بھی کیا یاد رہے کہ سابقہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں سی پیک کے منصوبے بہت ساری وجوہات کی بنیاد پر سست روی کا شکار رہے ہیں لیکن اب جو منظر کشی ہو رہی ہے اور جس طرح کے مناظر پاکستان کی سیاست میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اب شاید پاکستان کے ائندہ وزیراعظم کے طور پر نواز شریف کو لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے میاں نواز شریف کے دور میں سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا اور اس تناظر میں پاکستان میں بہت بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے بعض تو ان کے دور حکومت میں ہی مکمل ہوئے لیکن بعض پروجیکٹ سرد مہری کا شکار ہو گئے اور ان کی رفتار سست پڑ گئی اور جب خان صاحب اگئے تو بعض منصوبوں کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ان میں ایک بہت بڑا منصوبہ ایم ایل ون کا منصوبہ ہے جو پاکستانی ریلوے کی بحالی اور اسے ایک نئے ٹریک پر ڈالنے کے حوالے سے دونوں ملکوں نے بہت سارا کام کر لیا تھا اور اس وقت کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے چینیوں کو اس کے حوالے سے سرمایہ کاری پر بھی آمادہ کر لیا تھا لیکن 2018 سے 22 تک جس طرح زبانی جمع خرچ کیا گیا اور عملا کوئی کام نہیں کیا گیا تو لاگت بھی بڑھ گئی اور اس حوالے سے چینی بھی ناراض ہو گئے کیونکہ چینی یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنا تجارتی عمل جو سی پیک کے ذریعے عالم اقتصادی راہداری پر شروع کریں گے اس میں جہاں سڑکوں کا جال بچھایا جائے وہاں ریلوے کے نظام کو بھی مضبوط کیا جائے اور سے وہ سرمایہ کاری کرنے پر بھی تیار تھے تو لامحالہ جب انہوں نے یہ ساری سرمایہ کاری بھی تیار کر رکھی تھی تو ایسے میں ہمارے اس وقت کے وزیراعظم اور وزیر مواصلات کا براہ راست چینی منصوبوں میں کرپشن کے حوالے سے کسی باقاعدہ ثبوت کے بغیر بیان دینا کبھی قومی خدمت نہیں ہوسکتا ان منصوبہ جات میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے چینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کی وجہ سے چینی سرمایہ کاری کی رفتار کم ہوئی اور جب چینی سرمایہ کاری کی رفتار کم ہوئی تو اس بد اعتمادی والے ماحول کی وجہ سے پاکستان کے اندر معاشی حالات کمزور ہوئے اور جو تھوڑی بہت سرمایہ کاری ہو رہی تھی وہ سرمایہ کار بھی اپنا بوریا بستر گول کر گئے ایسے ماحول نے مزید سرمایہ کاری آنے کے راستوں کو روک دیا اب ان حالات میں ایک ایسے شخص کو بطور وزیراعظم پاکستان لایا جا رہا ہے کہ جس کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں سی پیک کا خالق تھا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ میاں صاحب کے دورِ حکومت میں پاکستان میں معاشی ترقی ہوئی تھی تو امید کی جاتی ہے کہ پاکستان عالمی اقتصادی راہداری میں جس حیثیت میں شامل ہوا تھا سی پیک کے ذریعے اقتصادی ترقی کے وہ تمام اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا ہمیں بطور قوم چائنہ کے ساتھ اپنی دوستی پر فخر بھی کرنا چاہیے اور اس دوستی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے اندر جو اپنے سیاسی معاملات کے حوالے سے کھینچاتانی پائی جاتی ہے اس میں چین اور پاکستان کے تعلقات نشانہ نہیں بننے چاہئیں بلکہ ان تعلقات کو دفاعی معاملات کی طرح قومی مفادات کی عینک سے دیکھا جانا چاہیے یہی وہ راستہ ہے کہ جس کی بنیاد پر ہم اقتصادی طور پر ایک خوشحال پاکستان اپنی آنیوالی نسلوں تک منتقل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ سکتے ہیں