یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
( مسئلہ فلسطین کے تناظر میں)
تحقیق ....محمد شکیل بھنڈر
پی ایچ ڈی، ریسرچ اسکالر
 bhinder1973@gmail.com

یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے 
 علامہ اقبال اپنے اللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں اے اللہ پاک مسلمانان عالم کے دلوں کو ایک بار پھر زندہ کر دے ، ان کے دلوں میں وہ جوش پیدا کر دے اور ان کے اندر کے انسان ، ان کی روح میں ایسی تڑپ پیدا کر دے جو مسلمانوں کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر دنیا کے ایک کونے میں کوئی مسلمان تکلیف میں ہوتا تو وہ تکلیف دنیا کے دوسرے کونے تک محسوس کی جاتی۔ مگر صد افسوس آج جس طرح مسلمانوں پر یہود ونصارہ اور خاص طور پر فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کے یہودی ظلم اور ستم کے پہاڑ توڑ رہے اس پر عالم اسلام خاموش نظر آتا ہے۔اس کے ساتھ پوری عالمی دنیا اور عالمی امن کے اداروں کی خاموشی پر بھی تشویش لاحق ہوتی ہے ، اقوام متحدہ کی پیش رو " مجلس اقوام عالم کا رویہ مسئلہ فلسطین پر انتہائی سرد مہری سے عبارت رہا ہے ۔ اقبال اس کا مکمل ادراک رکھتے تھے، چنانچہ اس کی پالیسیوں اور رویوں پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، جمعیت اقوام عالم ( لیگ آف نیشنز ) کو چاہیے کہ ایک آواز ہو کر اس ظلم وبربریت کے خلاف صدائے اجتجاج بلند کرے، اسی تناظر میں آپ فرماتے ہیں۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
" اگر فلسطین پر یہودیوں کا حق ہے تو پھر اسپین اور ماضی کے وہ تمام یورپی علاقے جو مسلمانوں کے زیر انتظام رہے ہیں ان پر مسلمانوں کا حق کیوں نہیں ہے۔ " فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ نو آبادیاتی نظام اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر تھا۔ اسی سوچ کی تکمیل کی خاطر فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی جانے لگی ۔ چنانچہ دنیا بار کے مختلف ممالک سے یہودی یہاں آ کر آباد ہونے شروع ہو گئے اس کا اندازہ اس اقتباس سے کیا جا سکتا ہے ۔ " سر زمین فلسطین پر برطانوی استعمار کے زمانے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی شرح نمو 5/2 فی صد کے تناسب سے تھی جو فطری نظر آتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں یہودیوں کی شرح نمو 9 گنا زیادہ تھی۔ فلسطینی عوام نے اس طرح سے فلسطین پر برطانوی راج کی وجہ سے یہاں یہودی آباد کاری کی سخت مخالفت کی ۔ فلسطین کی قومی تحریک بھی انہی خطوط پر پروان چڑھی۔اس کے بعد تقسیم فلسطین کی تجویز کو صرف فلسطینوں نے ہی رد نہیں کیا بلکہ عالم اسلام نے بھی اسے رد کرنے کے ساتھ ساتھ شدید ردعمل کا اظہار کیا ۔ دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرح برصغیر پاک و ہند میں حضرت علامہ اقبال شدید پہلے شاعر اور فلسفی تھے جو جدید مشرقی اور مغربی علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے اور آپ نو آبادیاتی نفسیات اور سامراجی چالوں سے خوب آگاہ تھے، اس لیے آپ کی شاعری اور نثر دونوں میں نو آبادیاتی سوچ کے بارے میں منطقی اور سائنسی اظہار خیال ملتا ہے۔ علامہ اقبال فلسطین اور بیت المقدس کے بارے اس قدر فکر مند تھے کہ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک مکتوب میں تحریر کیا کہ " میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لئے تیار ہوں اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے۔" اس سے علامہ کی فلسطین کے بارے میں فکر مندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ کیوں کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنے دور کی وہ شخصیت تھے جو دور اندیشی کے ساتھ حقیقت پسندی سے کام لیا کرتے تھے ۔علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں بھی جمعیت اقوام عالم کے اس طرح کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، آپ نے قیام یورپ کے دوران اپنی تعلیم کے ساتھ دنیا میں رونما ہونے والے حالات واقعات کا با غور جائزہ لینے کے ساتھ عالم اسلام کے لیے فکرمند بھی رہے، اقبال اپنی تصنیف ضرب کی مختصر نظم " مکہ اور جنیوا " میں فرماتے ہیں ۔
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم
تفریق مل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم 
مکے نے دیا خاک جینوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم! 
آپ نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ادبی منظر نامے پر جو آواز اٹھائی وہ زیادہ تر آہ و بکا ، اور طنزیہ اسلوب کی غمازی کرتی ہوئی نظر آتی ہے اس کے ساتھ آپ نے منطقی استدلال اور فلسفیانہ شعور کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو شعر وسخن کا موضوع بھی بنایا ہے اس سے آپ کی سوچ وفکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نا صرف برصغیر پاک و ہند کے حالات سے باخبر تھے بلکہ عالم اسلام کے خلاف ہونے والے ظلم وبربریت سے بھی مکمل آگاہی کے ساتھ ساتھ اس کا وہ حل تجویز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے مسلمان ایک آزاد ریاست میں اپنی عبادات اور زندگی کے دوسرے معلات میں بھی آزاد ہوں کیونکہ آپ کے نزدیک اللہ پاک نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور آزادی ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اسی سلسلے میں آپ فرماتے ہیں ۔۔
تہران ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے 
 علامہ اپنی تصنیف ضرب کلیم کی ایک نظم " فلسطین عرب سے " میں فلسطینی عوام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں اے فلسطینی عرب تیرے وجود میں جو آگ کے شعلے موجود ہیں اس سے زمانے کو جلا کر راکھ کیا جا سکتا ہے ، تیرا علاج لندن یا جنیوا میں نہیں کیوں کہ دیار فرنگ کی خارجہ پالیسی اس وقت یہودی تاجروں کی مکمل گرفت میں ہے ، تو امن کی بجائے اپنی خودی کو بیدار کر کیونکہ امتوں کی نجات خودی کی نشوونما اور اس تجلی کی مرہون منت ہوتی ہے جس کے پیدا ہو جانے سے اقوام عالم کی طاقت ور ریاستیں بھی لرز جاتی ہیں
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے 
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
علامہ اقبالؒ کی رحلت کے دس سال بعد اسرائیل کا باقاعدہ قیام 1948ئ میں عمل میں آتا ہے لیکن آپ اس خطے میں سامراجی چالوں سے مکمل آگاہی رکھے ہوئے تھے آپ اپنی تصنیف ضرب کلیم کی ایک اور نظم " شام و فلسطین " میں فرماتے ہیں کہ اگر اس دعوے کو تسلیم کر لیا جائے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق اس لیے ہے کہ وہ کبھی یہاں قابض تھے تو پھر ہسپانیہ پہ مسلمانوں کا حق کیوں نہیں تسلیم کیا جا سکتا، کیوں کہ مسلمانوں نے تو اس علاقے پر سات سو سال تک اپنی حکمرانی کی عمدہ مثال قائم کی ۔ آپ نے اپنے ان اشعار میں یہودیوں کے اس دعوے کی قطعی طور یوں نفی کی ہے کہ۔۔
زنداں فرانسیس کا میخانہ سلامت
پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا 
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور 
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا
 علامہ اقبالؒ اپنے دور میں بھی ان تمام حالات سے آگاہ تھے جو آج پیش آ رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے اسلام کی عظمت اور اپنے قبلہ او¿ل کی حفاظت اور بازیابی کی خاطر اور خاص طور پر اسرائیل کی فلسطینی آبادی کو نشانہ بناتے ہوئے جو نسل کشی کی جا رہی ہے اس کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا جائے ۔ مسلمان جہاں بھی ہیں اور جس حثیت میں بھی ہیں فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے آواز اٹھائیں یہ ان کا ہم پر قرض ہے جو ادا کرنے کا صحیح وقت ہے۔ علامہ جب حرم کی پاسبانی کی بات کرتے ہیں تو اس پاسبانی کا مکمل حق اس وقت ادا ہو گا جب عالم اسلام قبلہئ او¿ل بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ایک ہو کر کوششیں کر گئے اور بیت المقدس کی پاسبانی کریں گے، اللہ پاک سے دعا ہے اپنے پیارے حبیب خاتم النبیین رحمت دوعالم غریبوں ، یتیموں اور بےکسیوں کے والی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے مسلمان جہاں بھی ظلم و ستم کا شکار ہیں غالب سے ان کی مدد فرما، خاص طور پر فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو وہ آزادی نصیب فرما جس کے لیے وہ کئی دہائیوں سے برسرِ پیکار ہیں ۔ آمین یارب العالمین 


ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

ای پیپر دی نیشن