سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@gmail.com
دنیابھر میں کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں زندگی بچانے کیلئے ایمبولینس کی فوری دستیابی اور طبی امدادانتہائی ضروری اور بنیادی ہیلتھ کور ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث مریضوں کی کی بڑی تعدادراستے ہی میں زندگی کی بازی ہار جاتی ہے جبکہ اسپتال تک مردہ حالت میں لائے جانے کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایمرجنسی کی صورت میں مریض کو حادثہ کی جگہ سے اسپتال تک پہنچانے کے دوران اگر بروقت طبی امداد مل جائے تو جان بچانے کے امکانات بہت زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، جس میں ایمبولینس سروس اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
اس وقت اگر ایمبولینس سروس کی بات کریں تو دنیا میں سب سے بہترین ایمولینس سروس جاپان کی تصور کی جاتی ہے۔ ایمبولینس سروس میں پاکستان کے ہیرو عبد الستار ایدھی کا نام سر فہرست ہے۔ ایدھی ایمبولینس سروس دنیا میں کسی بھی فلاحی ادارے کی جانب سے چلائی جانے والی سب سے بڑی سروس ہے۔ جبکہ امریکہ کے ریسکیو 911 کی دنیا کے بیشتر ہیلتھ کیئر سسٹم پیروی کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ خوش قسمتی سے پاکستان میں بھی ایسی ایمبولینس سروس کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جو بین الاقوامی معیار کے عین مطابق اور جدید سہولیات سے لیس ہے۔ اور سب سے اہم بات کہ یہ سروس عوام کیلئے بالکل مفت ہے۔سندھ حکومت نے خدمت کے اس شعبے میں نئی مثال قائم کی ہے۔ اس سروس کو سندھ انٹی گریٹڈ ہیلتھ سروسز ( ایس آئی ایچ ایس) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سندھ ایس آئی ایچ ایس کے چیف ایگزیکٹیو بریگیڈئیر(ر) طارق قادرکا خصوصی انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ان سے ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے
اس وقت ریسکیو 1122 سروس کے تحت کتنی ایمبولینسز آپریشنل ہیں اور سندھ کے کن کن علاقوں میں خدمات فراہم کررہی ہیں؟
چھ سال قبل امن نے کراچی سے اپنے آپریشن کا آغاز کیا بعد میں ٹھٹھہ اور سجاول بھی اس کے دائرہ کار میںشامل کر لئے گئے۔ صوبائی حکومت کے سندھ انٹی گریٹڈ ایمرجنسی ہیلتھ سروسز کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کے بعد اب ریسکیو 1122کی خدمات کا دائرہ کار سندھ بھر میں بتدریج وسیع ہوچکا ہے۔سندھ انٹی گریٹڈ ہیلتھ سروسز کی تشکیل کے بعد امن کی 43ایمبولینسز کی منتقلی بھی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ اس وقت 371 ایمبولینسز اور 25میت گاڑیاں سندھ بھر میں متحرک ہیں اور سندھ کے شہریوں کو بلامعاوضہ خدمات مہیا کررہی ہیں۔ 20جون 2023کو سندھ انٹی گریٹڈ ایمرجنسی ہیلتھ سروسز کے ساتھ بطور چیف ایگزیکٹووابستگی اختیار کرنے کے بعد سے سندھ کے 18ڈسٹرکٹس میںجاری ریسکیو 1122 کی خدمات کو توسیع دے کر 14اگست 2023سے سندھ کے تمام 30اضلاع تک پھیلا دیا گیا ہے ۔ابھی اس سروس کا کادائرہ کارموٹرویز، نیشنل اور صوبائی ہائی ویز تک محدود ہے۔ ایمبولینسز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے اب بھی ڈسٹرکٹ کی سڑکوں اور یونین کونسل کی سطح تک ریسکیو 1122کی خدمات کی فراہمی میں مسائل کا سامنا ہے تاہم ان جگہوں پر بھی خدمات مہیا کی جا رہی ہیں۔
ریسکیو 1122کی ایمبولینسز اور دیگر سروسز میں خصوصیات اور صلاحیتوں کے لحاظ سے کیا فرق ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ میں ان تمام اداروں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے90کی دہائی کے اوائل میں پاکستان میں ایمبولینس سروسز کا آغاز کیا۔ میں ذاتی طور پر عبدالستار ایدھی صاحب کا شکرگزار ہوں اسی طرح رمضان چھیپا صاحب بھی قابل تعریف ہیں جنہوں نے پاکستان میں ایمبولینس سروس متعارف کرائیں۔ اسی طرح دیگر 18سے 20دیگر اداروں کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو منظم طریقے سے ایمبولینس سروس مہیا کررہے ہیں۔ تاہم ایمبولینس میں دستیاب جان بچانے والے آلات اور تربیت یافتہ اسٹاف کے لحاظ سے ان دیگرایمبولینس سروسز کا معیار بہتر نہیں بنایا جاسکا ا۔اس کا کام مریضوں کی منتقلی کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت تک محدود رہا ۔ لہٰذاسندھ انٹی گریٹڈ ایمبولینس سروس اور دیگر ایمبولینسز میں بنیادی فرق جدید طبی آلات اور تربیت یافتہ طبی عملہ کی موجودگی کا ہے ۔حکومت سندھ کے زیر انتظام
ریسکیو 1122کو بین الاقوامی معیارات اور پروٹوکولز کے مطابق چلایا جاتا ہے جن میں یو ایس 911 کے پرائمری میڈیکل ڈسپیچ سسٹم (پی ایم ڈی ایس)، برطانیہ، جرمنی اور یورپ کے معیار کو پیش نظر رکھاگیا ہے۔ ایمبولینس میںمریض کے لئے 7 اہم وائٹل مانیٹرنگ سسٹم جن میں بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن اور دل کی کارکردگی کی نگرانی، تنفس اور پھیپھڑوں کی فعالت، ایمبیوبیگ، آٹو میٹڈ ایکسٹرنل ڈی فائبرلیٹر (اے ای ڈی ) شامل ہیں۔ ایک اور اہم ایکوپمنٹ وینٹی لیٹر ہے جو کہ ایک مہنگا آئٹم ہے جس کی قیمت 25سے 30لاکھ روپے ہے اور دیگر ایمبولینسز میں نہیں ہوتا تاہم ہماری 40فیصد ایمبولینسز جو سندھ کے تمام ڈسٹرکٹس میں کام کررہی ہیں وینٹی لیٹرز سے لیس ہیں ۔ایک میں 24کیوبک فٹ آکسیجن موجود ہوتی ہے جبکہ ایک پورٹ ایبل آکسیجن سلنڈر اور ایمبو بیگ کے ساتھ پورٹ ایبل وینٹی لیٹر بھی ہوتا ہے جو مریض کے ایمبولینس تک خود نہ آسکنے راستے کی دشواری یا بلند عمارت، حادثہ کی صورت میں ہسپتال یا گھر تک منتقلی کے لیے استعمال ہوتے ہیں اسی طرح ایمبولینسز میں جان بچانے والی ادویات موجود ہوتی ہیں۔ سڑکوں پر پیش آنے والے حادثات میں انسانی جانیں بچانے کے لیے ریڑھ کی ہڈی اور گردن کی ہڈی کو تحفظ دینے والا پروٹیکٹر بھی موجود ہوتا ہے۔ڈرائیور سمیت سٹاف کو عالمی معیار کے مطابق تربیت فراہم کی جاتی ہے اور تین سے چار سال کے کورسز کی تکمیل پر سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔
ریسکیو 1122کے ریونیو کا بنیادی ذریعہ کیا ہے اور کس طرح آپریشنل لاگت کو پوراکیا جارہا ہے؟
سندھ حکومت ہمیں مکمل فنڈنگ مہیا کرتی ہے جس میں گاڑیوں کی خریداری اور انہیں ایمبولینس میں تبدیل کرنے کے اخراجات بشمول آلات اور یومیہ اخراجات جن میں ایندھن اور اسٹاف کی تنخواہیں شامل ہیں سب کچھ سندھ حکومت کے فنڈ سے چلایا جا رہا ہے۔میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے آپریشنز کے تمام متعلقہ شعبوں کے لیے عطیات بھی تلاش کررہے ہیں۔ کوئی بھی فرد اپنے والدین، بچوں، فیکٹری اور اداروں کے نام سے بھی ہمیں اپنی مالی مدد، مہارت یا ایمبولینس کی شکل میں عطیہ کرسکتا ہے مثال کے طور پر آپ ہماری خدمات کی یومیہ، ہفتہ وار، ماہانہ یا فی گھنٹہ لاگت کے اخراجات کی مد میں بھی عطیات دے سکتے ہیں ہم آئندہ سال سے رمضان کے دوران زکوٰة کی وصولی صدقات کی مہم بھی متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
آپ کی ایمبولینس سروس کا رسپانس ٹائم کتنا ہے شہری اور دیہی علاقوں میں کتنے وقت میں ایمبولنس ایمرجنسی کال پر پہنچ جاتی ہے ؟
ایس آئی ای ایچ ایس اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں10سے 14منٹس جبکہ دیہی علاقوں میں 20سے 26منٹ کے دورانیے کا رسپانس ٹائم دے رہا ہے۔جبکہ اس حوالے سے دو عالمی معیارات پائے جاتے ہیں جن میں ایک 911اور دوسرا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا معیار شامل ہیں۔ شہری علاقوں میں رسپانس ٹائم کے حوالے سے 911 کا معیار 7سے 8منٹ جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا معیار 8سے 12منٹ میں ایمبولینس ایمرجنسی تک پہنچنے پر زور دیتا ہے۔ ہماری اس سروس پر اوسطاً ایک 40 کلو میٹر کے راو¿نڈ ٹرپ کیلئے ایمبولینس کی لاگت فی مریض 7500روپے بنتی ہے جس میں 2سے ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔
سڑکوں پر ہونے والے حادثات اور دیگر ایمرجنسی حالات کا تناسب کیا ہے؟
اگست 2021سے سروس کے آغاز سے اب تک ہم مجموعی طور پر 17لاکھ 63ہزار مریضوں کو ہیلتھ ایمرجنسی خدمات فراہم کرچکے ہیں جن میں سندھ کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے 3لاکھ 50ہزار سے 3لاکھ75ہزار ٹریفک حادثات کی ایمرجنسیز بھی شامل ہیں۔ اس طرح حادثات کا تناسب 22فیصد بنتا ہے جن میں شدید، سنگین اور معمولی نوعیت کے حادثات شامل ہیں۔ ہماری سروس زچہ و بچہ کی جانیں بچانے میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے اب تک 633 زچگی کے کامیاب کیسز بھی ایمبولینسز کے اندر محفوظ اور پرسکون طریقے سے عمل میں لائی جاچکی ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے ریسکیو 1122 سروس کی معاونت سے پیدا ہونے والے ہر بچے کو تحفے کے طور پر پہلا بلینکٹ، کپڑے اور تولیہ بھی دیا جاتا ہے جبکہ مٹھائی بھی اگلے روز اس خاندان کو نزدیکی پتہ پر ڈیلیور کی جاتی ہے ۔
ایمبولینس بلانے کے لیے کس عمل سے گزرنا پڑتا ہے کیا کوئی ہاٹ لائن مخصوص ہے؟
ہماری 2ہاٹ لائنز مخصوص ہیں جن میں 1122ایمرجنسی خدمات کے لیے جبکہ 1123 ٹیلی طبیب کے نام سے ایک ہاٹ لائن ہے جس سے مریضوں کو چوبیس گھنٹے ماہرانہ مشاورت اور رہنمائی فراہم کی جاتی ہے یہ سہولت نفسیاتی عارضوں کے مشورے، ذہنی صحت، پریشانی ذہنی دباو¿ کے لیے بھی مہیا کی جاتی ہے جبکہ خاندانی مسائل کے سلسلے میں بھی ماہرین سے مشورہ اور رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہاں ایک دلچسپ مگرکامیاب کیس کا ذکر کرنا ضروری ہو گا جس میں ایک مریض نے کال کرکے کہا کہ وہ کاروبار میں نقصان اٹھانے کی بناءپر خودکشی کرنے جارہا ہے ۔ہمارے نمائندے پہلے اس کال کرنے والے کو معمول کی حالت پر لائے اور 7ماہ تک مشاورت مہیا کرتے رہے اور اب اس مریض نے ایک ملازمت اختیار کرلی ہے۔
کیا اس وقت ایمبولینسز کی موجودہ تعداد سندھ کی آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے؟
اس وقت ایمولینسز کی دستیاب تعداد سندھ کی آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ برطانیہ کے مطابق لندن ڈاو¿ن ٹاو¿ن میں 30ہزار افراد کے لیے ایک ایمبولینس ہونا ضروری ہے جبکہ برطانیہ کے دیہی علاقوں میں ہر ایک لاکھ افراد کے لیے ایک ایمبولینس کا ہونا ضروری ہے۔ امریکا میں شہری علاقوں کے لیے ہر 50ہزار افراد کے لیے ایک ایمبولینس کا تناسب ہے جبکہ دیہی علاقوں کا تناسب ایک لاکھ لوگوں کے لیے ایک ایمبولینس بنتا ہے۔ ایس آئی ای ایچ ایس بھی اسی طرز پر کام کا ارادہ رکھتی ہے۔سندھ حکومت کے ساتھ ایمبولینسز کی تعداد میں اضافہ کے لیے بات چیت اور منصوبہ بندی جاری ہے۔ ہم سندھ کے لیے میت گاڑیوں کی تعداد بھی 25سے بڑھا کر 150کرنا چاہتے ہیں ۔
ایس آئی ای ایچ ایس کی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے پانچ سالہ منصوبہ کیا ہے؟
ہمارا 2023 پلان ہے کہ ہم سندھ کے تمام ڈسٹرکٹس میں اپنی خدمات مہیا کریں جن میں موٹر ویز، اہم صوبائی ہائی ویز اور ہم اس مقصد میں الحمداللہ کامیاب رہے ہیں۔ سال 2024میں ہم سب سے پہلے اپنی ایمبولینسز کی تعداد 371سے بڑھا کر 600کرنا چاہتے ہیں دوسرا یہ کہ ہمارا منصوبہ اپنے ادارہ جاتی اخراجات کو 30فیصد تک کم کرنا ہے۔ ہمارا تیسرا ہد ف اپنے آپریشنز کو سپورٹ کرنا ہے جس کے لیے ہم 10ایسے پراجیکٹس متعارف کرانا چاہتے ہیں جن سے ہمیں ریونیو مل سکے۔
ان میں سے ایک منصوبہ پینے کے محفوظ پانی کی فراہمی کے لیے اپنے آر او پلانٹ کی تنصیب ہے جس سے ہمیں سالانہ 22لاکھ روپے کی بچت ہوگی اور اس بچنے والی رقم سے ہم دو ایمبولینسز کے اخراجات نکال سکیں گے۔
سال 2025کے لیے ہمارے اہداف میں ایمبولینسز کی تعداد 600سے 1000 تک بڑھانا ہے جس میں امن فاو¿نڈیشن کے تحت چلنے والی 43پرانی ایمبولینسز کو بھی تبدیل کرنا ہے۔ اسی طرح ہم ایس آئی ای ایچ ایس کے لیے عالمی توثیق بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایمبولینس سروس کے معیار کو عالمی سطح پر تسلیم کرایا جاسکے۔
سال 2026میں ہم اپنے بیڑے میں شامل ایمبولینسز کی تعداد 1100سے 1150 تک بڑھانا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہم سندھ کی سول سوسائٹی اور ریسکیو سروس کو بھی باہم منسلک کرنا چاہتے ہیں۔ سال 2027میں ہم اپنی پرانی ایمبولینسز کو بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے چار سال کے پراجیکٹس اور منصوبوں کو یکجاءکر کے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے کہ وہ کس طرح کام کررہے ہیں۔
سندھ میں شہریوں کیلئے ریسکیو کی بلامعاوضہ عالمی معیار کی سہولت
Nov 06, 2023