ڈسکورس آف ہائپر ریلٹی

Nov 06, 2024

عارفہ صبح خان

ڈسکورس آف ہائپر ریلٹی کو دنیا بھر میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ڈسکورس آف ہائپر ریلٹی کو سب سے زیادہ پزیرائی ملی ہے کیونکہ یہاں ہائیپر ریلٹی کا شروع سے ماحول رہا ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں نیک کو بد اور بدترین کو نیک پروین بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے علم کا بحران بلکہ قحط ہے اور قحط الرجال بھی شدید ہے ۔اس وجہ سے پاکستان میں تنقید کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔تحقیق کے لیے علم ،ذوق ،محنت، جستجو ،ذہانت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تحقیق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ آج کل جو دھڑا دھڑ ایم فل ،پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بتاشوں اور ریوڑیوں کی طرح بانٹی جا رہی ہیں تو ان اعلی ترین ڈگریوں کے ریسرچ پیپرز کی تحقیق لائبریری کی ایک شیلف سے دوسری شیلف تک محدود ہے۔ کتاب کو سجا کر اور کتاب کے مواد میں الفاظ کے ہیر پھیر کو تحقیق کا نام دے دیا گیا ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں جتنے ڈاکٹریت ہوئے ہیں اس کے بعد تو پورے پاکستان میں انقلاب آجانا چاہیے تھا۔ فزکس کیمسٹری بیالوجی آرٹ سائنس ،تہذیب و ثقافت اور علم کے تمام مراکز میں حیرت انگیز پر اثر مفید تبدیلیاں آ جاتیں،لوگوں میں علم کا شعور بڑھ جاتا۔ ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں آ جاتیں۔ پاکستان ترقی کی معراج پر ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں 70 فیصد مقالہ جات سفارشی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔
کسی پروفیسر نے کس سے فائدہ اُٹھایا ۔خوشنودی حاصل کرنا سفارش کرانا ،کوئی مالی سفارتی سماجی معاشی معاشرتی فیض حاصل کرنا ،پی آر شپ اور اس طرح کے بے شمار فوائد حاصل کر کے کسی دو نمبر آدمی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھوا لیا جاتا ہے ۔جس سے طالب علم کو پیش بہا فائدہ ہوتا ہے کیونکہ شخصیات لکھنے سے خود وہ شخص تیار کر کے دے دیتی ہے ۔خود اپنی تعریفیں لکھ کر دے دیتے ہیں اور ایسی ایسی حاشیہ آرائی کرتے ہیں کہ افلاطون ارسطو ارش میدس آئزک نیوٹن مادام کیوری شیلے میر غالب سودا سبھی ان جعلی علمی عظمتوں کے میناروں کی جیلساز تعریف اور توصیف کو پڑھ کر دانتوں تلے انگلیاں دبانے کے بجائے اپنا پورا ہاتھ کاٹ کھائیں۔ نہ طالب علم کو مکالے پر جان مارنی پڑتی ہے اور نہ نکمے پروفیسر کو سر کھپانا پڑتاہے، بلکہ شہرت کے بھوکے دو نمبر افراد خود مقالہ لکھ کر یا لکھوا کر دے دیتے ہیں ۔پھر اسے کتابی شکل میں چھپوانے کے تمام اخراجات بھی خود برداشت کرتے ہیںاور یہی نہیں بلکہ ڈگری دلوانے کے لیے متعلقہ پروفیسروں سے تعلقات کے زور پر سفارش اور اقرہ پروری سے خوب کام لیتے ہیں ۔جب کتاب چھپ جاتی ہے تو طالب علم پروفیسر اور متعلقہ شخصیت کو چلو بھر شہرت مل جاتی ہے۔ پروفیسر کو یونیورسٹی سے معاوضہ مل جاتا ہے تو طالب علم اپنے گاؤں سے اصلی گھی شہدکے قدموں میں نچھاور کر دیتا ہے۔جبکہ شہرت کی بُھوکی شخصیت سے بھی بے تہاشہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ طالب علم کو ڈگری اور نوکری مل جاتی ہے جبکہ پروفیسر بھی گڈ بک میں رہتا ہے اور اس کا گریڈ بھی بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ شہرت کے بھوکے کو اس کی اوقات کے مطابق شہرت مل جاتی ہے ۔پاکستانی یونیورسٹیاں ایسی دو نمبر ڈگریوں سے بھری ہوئی ہیں ۔آج تک کبھی کسی نے ان مکالوں کے جو ڈگری کے لیے تصورکیے جاتے ہیں یہ علم نہیں بلکہ ہائپر رئیلٹی کا کھیل ہے۔ ہائپرر یلٹی کا کھیل صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ جبکہ ہائپر ریالٹی کے علم کی دریافت کو ایک صدی ہوئی ہے۔ گھروں میں دیکھیں کہ وہ سب سے نکمہ ہٹ دھرم اور کام چور اور چالاک بیٹا ہوتا ہے وہ اپنی تمام کمزوری و نالائقیوں کام چوریوں اور مکاریاں چاپلوسی اور خوش آمد کے چولے میں چھپا ہوتا ہے۔ ہر وقت ماں باپ کی جھوٹی تعریفیں فرمابرداری کا ڈرامہ محبت کا دکھاوا خدمت گزاری کا ڈھونگ میٹھی میٹھی باتیں اور میٹھے پن سے ماں باپ کو بے وقوف بناتا ہے۔جو بیٹی پڑ ھنے لکھنے اورکام کاج میں نکمی ہو والدین اس کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ساس کو اپنی بہو ںمیں جو اُس جیسی چلتر چالاک زبان دراز،ہڈ حرام خود غرض بناوٹی، ریاکار اور جھوٹی دوغلی بہو پسند ہو، جو سب بہوں میں سب سے معمولی شکل کی ہو ۔ساس اُٹھتے بیٹھتے اس کی تاریفیں کرتے نہیںتھکتی۔ اسے سب کے سامنے نیک پروین ثابت کرے گی زور لگا دے لیکن جوبہو خوبصورت سمجھدار مہذب کم گو تعلیم یافتہ ذمہ دار ہو اس میں طرح طرح کی من گھڑت خامیاں نکالے گی ہر وقت اس کی برائیاں کرے گی۔ اس کے شوہر کے کانوں میں زہر انڈیلے گی۔ اس کے معصومیت سادگی اور خوبصورتی میں عیب بنا کر پیش کرے گی ۔یہ سب سے مکارانہ ہائیپر ریلٹی ہے جس سے زندگیوں میں کڑواہٹ تلخیاں آتی ہیں۔ ہائیپر ریلٹی ساس بہو کے رشتوں کے علاوہ سب سے زیادہ سیاست کاروبار شوبز ہیلتھ گیمز اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں استعمال ہوتی ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہائپر ریلٹی کے استعمال نے زندگیوں کوبے اثر بنا کر رکھ دیا ہے ۔آج امریکہ میں الیکشن ہے لیکن ساری دنیا اس طرح ہے جیسے یہ الیکشن ان سب کے لیے ہے۔ امریکہ مرے یا جئیے لیکن لوگوں نے اپنا مستقبل امریکہ سے جوڑ رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہارس ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ فلسطین اور غزہ میں حقیقت میں چھ ماہ سے یہی کہا جا رہا ہے کہ 40 ہزار فلسطینی مرے ہیں، لیکن لاکھوں افراد کی موت کوئی معنی نہیں رکھتی اب پی آئی اے کیا امریکہ یا انگلینڈ کا ادارہ ہے جسے مسلسل بیچنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مریم نواز کو والد صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ وہ اپی آئی اے کو خرید کر ائیر پنجاب شروع کریں ،مطلب 85 ارب کی پی آئی اے تو خریدی جا سکتی ہے مگر پینشنرز کو چند ہزار دے دیں تو خزانے پر بوجھ پڑتا ہے ۔2016 ء سے لے کر اب تک جتنے سرکاری افسران ریٹائر ہوئے ہیں پنجاب حکومت ان کی گروپ انشورنس پر پھن مار کر بیٹھی ہوئی ہے ۔ریٹائر ملازمین کو پہلے پنجاب حکومت بنے بنائے گھر دیتی تھی پھر شہباز شریف نے غریب ملازمین کو پلاٹوں تک محدود کر دیا، پھر لاہور سے باہر دورافتادا اضلاع میں پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ اب موجودہ حکومت ریٹائر ملازمین کے پلاٹ بھی کھا گئی ہے اور روزانہ گھر پلاٹ نوکریاں کارڈ اور نہ جانے کیا کیا دینے کے اعلانات کرتی ہے اور کیا کیا ہوائی قلعے بنائے جاتے ہیں ان کی پروجیکشن کی جاتی ہے۔لیکن کبھی کسی کو فیض پاتے تو نہیں دیکھا گیا ۔بس حسین رنگین دعوے اور نعرے سن لیتے ہیں ،ہوائی منصوبے سن لیتے ہیں ،کسی کو ابھی تک پھو ٹی کوڑی کا فائدہ پہنچے تو نہیں دیکھا گیا ۔روز فلاحی ترقیاتی کاموں کی باتیں ہوتی ہیں ،مگر یہ ترقی صرف تقریروں اور فائلوں تک محدود رہتی ہے ۔اگر ترقی ہو رہی ہوتی تو نظر بھی آتی ،بس دکھایا جاتا ہے ۔دنیا جہاں سے فروری 2023 کے بعد اربوں ڈالر آیا ہے۔ کیا کسی غریب پرچونی خرچ ہوئی یا کوئی نیا ادارہ بنا ؟کیا مہنگائی بیروزگاری میں کوئی کمی ہوئی؟کیا کوئی ترقیاتی منصوبہ سامنے آیا؟ ہر ہفتے مختلف ممالک سے تجارتی مالیاتی معاہدے ہوتے ہیںکیا کسی معاہدے سے کسی غریب پاکستانی کو ٹکے کا فائدہ پہنچا ہے؟ ہر وقت میٹنگز معاہدے ملاقاتیں اور غیر ملکی دورے ہوتے ہیں کیا کبھی کسی بے وقوف پاکستانی نے یہ پوچھا ہے کہ اس سے عوام کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ڈکورس آف ہائیپریلٹی کا جال بچھا کر غیر ملکی سفیر وں مشیروں وزیروں سے ملاقاتیں کر کے پی آر شپ میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔غیر ملکی تعلقات بڑھانے اور عیش وعشرت کا دروازہ کھول دیا گیا ہے اور 26 ویں ترمیم کرنے کے بعد بھی مزید قانونی ایکٹز اسمبلی سے پاس کرانے کے بعد، اپنے مقاصد کو حل کرنے کے لیے یہ ساری قانون سازیاں کی گئی ہیں۔ پوری قوم کو الو بنا کر بلوں کی قطاروں میں کھڑا کر رکھا ہے اور ادھار قرضوں سے عیاشیاں ہو رہی ہیں۔ ایسا ہے میرا پیارے پاکستان اور اس میںدکھائی جانے والی لاتعداد ڈسکورس آف ہائپر رئیلٹیز!

مزیدخبریں