اخوت اس کو کہتے ہیں چھبے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر اک پیروجواں بے تاب ہو جائے
حضرت اقبال نے عروج کمال تک پہنچنے کا راستہ اتفاق' اتحاد اور مضبوطی کو بتایا۔ ہم اس راستے پر گامزن رہتے تو مسلمان اقوام عالم کے راہبر ومربی کہلاتے! افسوس مسلم لیڈر شب کو آپس کی نااتفاقی اور ناچاقی نے تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا، وہ بھی دن تھے جب مسلمان دھمکی دیتے تو مغرب کانپ اٹھتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ فلسطین پر جارحیت کو 13 ماہ ہوگئے مسلم حکمران اسرائیل کے خونیں قدم آگے بڑھنے سے روک نہیں سکے۔
تھے تمہارے ہی آباء مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
57 اسلامی ممالک 2 ارب مسلمان اور وسائل سے بھرپور ریاستیں… ہم نے آج ہوش کے ناخن نے لئے تو ہماری داستانیں کتابوں کا ذکر بن کر رہ جائیںگی۔ سقوط غرناطہ ' سقوط بغداد اور سقوط ڈھاکہ جیسے روح شکن سانحات بھی مسلمان قیادت کو خواب غفلت سے بیدار نہ کرسکے۔ اب پانی سر سے بہت اونچا ہوگیا۔ خدارا ہوش کریں، اپنے اسلاف کو دیکھیں ان کی تعلیمات پر اک نظر ڈالیں خدا پرستی اور حب رسولؐ کو زندگی کا مشن بنائیں تب جاکر ہم باطل کے سامنے سینہ سپر ہوسکیں گے
بتان رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی…!
9 نومبر کوملک بھر میں علامہ اقبال کا 147واں یوم ولادت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے گا، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بانگِ دراء شاعر مشرق حضرت کا پہلا مجموعہ کلام ہے ، اسکی پہلی فصل 1924ء میں شائع ہوئی۔ " خطاب بہ نوجوان اسلام" مجموعے کی اولین نظم ھے ،جس میں اقبال نے مسلمان نوجوان کو براہ راست مخاطب کر کے اس سے اپنے دل کی بات کہی ھے ،نظم اس شعر سے شروع ہوتی ھے
کبھی اے نوجواں مسلم ! تدبر بھی کیا تو نے ؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ھے اک ٹوٹا ہوا تارا ؟
اقبال نوجوان سے مخاطب ہوتے اور اس پر ماضی و حال کا فرق یوں واضح کرتے ہیں :
تجھے آبا سے اپنے کوء نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار ' وہ کردار ' تو ثابت ' وہ سیارہ
گنواہ دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی ' کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ھے سیپارہ
اقبال شناساؤں اور محققین نے بانگ دراء کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا دور : بانگِ دراء کی شاعری علامہ اقبال نے 20 سال کے عرصے میں رقم کی۔ کتاب کا پہلا دور 1905 تک کی لکھی گئی بچوں کی نظموں، اور حب الوطنی پر مبنی ترانہ ہندی "سب سے اچھا ہندوستان ہمارا " پر مشتمل ہے دوسرا دور 1905 تا 1908 کہ اس دور پر محیط ہے ،جب آپ برطانیہ تشریف لے گئے تھے۔ وہاں کی علمیت اور عقلیت نے تو آپ کو بہت متاثر کیا اور آپ نے اسے سراہا۔ مگر وہاں کی مادہ پرستی اور روحانیت کی کمی پر آپ نے خوب تنقید کی۔ اس مجموعے کے دوسرے حصے نے آپ کو اسلام کی آفاقی اقدار کے قریب کر دیا۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو جگانے کے لیے اس مجموعے کے دوسرے حصے میں انقلابی شاعری کا آغاز کیا۔تیسرا دور :1908 سے 1923 تک کے درمیان لکھی گئی شاعری پر مشتمل ہے ،جس میں انہوں نے مسلمانوں کے عظیم ماضی کی انہیں یاد دلائی۔ انہوں نے مسلمانوں کو تمام سرحدوں سے بالاتر ہو کر اب سے اخوت اور بھائی چارے کا مطالبہ کیا۔ اس مجموعے کے تیسرے حصے میں نظم "طلوع اسلام" "شکوہ جواب شکوہ $بھی شامل ہیں۔ جس کو پڑھنے کے بعد جس کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو کیوں حکیم الامت اور امت کا نبض شناس کہا گیا۔عہد حاضر میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور آشفتہ سری کے آئینہ روزگار میں اگر بانگ دراء کا اگر فکری مطالعہ کیا جائے، تو یہ کتاب امّت مسلمہ کی نیہ کو پار لگانے اور اس کی شیرازہ بندی کے لیے ایک امرت دھارا یے۔ بقول معروف اقبال شناس خلیفہ عبدالحکیم "اقبال قرآن کا شاعر ہے"
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر