علامہ اقبال اور پْرامن معاشرہ

Nov 06, 2024

ڈاکٹر جمیل اختر  …تفہیم مکالمہ

علامہ محمد اقبال، برصغیر پاک و ہند کے عظیم شاعر، فلسفی اور مفکر تھے، جنہوں نے اپنی زندگی مسلمانوں کی فکری و روحانی ترقی کے لیے وقف کر دی۔ ان کا پیغام انسانیت کی بقا، امن، اور مساوات پر مبنی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو خودی کا درس دیا، جو انسان کو شعور ذات اور مقصد زندگی سے روشناس کراتا ہے۔ اقبال کا خواب ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا تھا جو امن و سکون، انصاف، اور باہمی احترام پر مبنی ہو، اور جس میں ہر فرد انسانیت کی عظمت کو پہچان کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ اقبال کے خیال میں ایک پْرامن اور مستحکم معاشرہ اس وقت ہی وجود میں آ سکتا ہے جب افراد میں روحانی بیداری اور اخلاقی بلندی پیدا ہو۔ ان کی فکر کا مرکز "فردِ کامل" یا "مردِ مومن" ہے، جو اپنی خودی کو بیدار کر کے اخلاق و کردار کے اعلیٰ مقام پر پہنچتا ہے۔ اقبال کے نزدیک فردِ کامل ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے جو اپنے کردار اور افعال سے معاشرے میں امن، محبت، اور انصاف کے اصولوں کو فروغ دیتی ہے۔ اس فرد میں خود اعتمادی اور اخوت کا جذبہ ہوتا ہے، اور وہ اپنی ذاتی خواہشات سے بلند ہو کر قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
اقبال کا تصور خودی دراصل فرد کی اپنی صلاحیتوں، قابلیتوں اور مقصدِ حیات کا ادراک ہے۔ ان کے نزدیک جب انسان اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے، تو وہ اپنی ذات میں کامل ہو جاتا ہے، اور اس کی سوچ اور عمل میں وسعت اور بلند نظری پیدا ہوتی ہے۔ خودی کا یہی شعور افراد کو معاشرتی بھلائی کے لیے جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے۔ ایسے افراد دوسروں کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور اپنی توانائیوں کو ایک پْرامن اور خوشحال معاشرے کے قیام میں صرف کرتے ہیں۔ اس فکر کا پرتو ہمیں اقبال کی شاعری میں بھی ملتا ہے، جہاں وہ فرد کی روحانی ترقی کو معاشرتی امن کے قیام کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔
اقبال کی فکر میں معاشرتی انصاف اور برابری کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے مغربی تہذیب پر تنقید کی، جو انہوں نے محسوس کیا کہ روحانیت اور اخلاقی اقدار سے عاری ہے۔ ان کے خیال میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو مادی خواہشات کے پیچھے دوڑنے پر مجبور کر دیا ہے اور طبقاتی فرق بڑھا دیا ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی تعلیمات کو انہوں نے امن اور بھائی چارے کا سرچشمہ قرار دیا۔ ان کے نزدیک ایک اسلامی معاشرہ ہی دنیا میں حقیقی سکون اور انصاف کا ضامن بن سکتا ہے۔ اقبال کی نظر میں قرآن مجید کے اصول معاشرتی انصاف اور بھائی چارے کو فروغ دینے میں معاون ہیں، اور ان اصولوں کے عملی اطلاق سے ایک پْرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
اقبال کا "مردِ مومن" دراصل ایک ایسی شخصیت ہے جس میں انسانی عظمت، احترام، اور رواداری کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ وہ فرد اپنے کردار سے نہ صرف دوسروں کے لیے مثال بن جاتا ہے بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کر کے معاشرت میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اقبال نے اس مرد مومن کی تصویر کچھ اس طرح بیان کی ہے: ہاتھ ہے اللہ کا بندہ? مومن کا ہاتھ  ... غالب و کار آفریں، کار کشا، کارساز۔ اس شعر میں اقبال اس مرد مومن کو اللہ کے نائب کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو معاشرتی امن اور انصاف کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اقبال نے نوجوانوں کو خاص طور پر مخاطب کیا اور ان کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو شاہین کا استعارہ دیا جو بلند پرواز اور خودداری کا علمبردار ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک نوجوانوں کو اپنی خودی پہچاننی چاہیے اور محنت و جستجو سے بلندیوں کو چھونا چاہیے۔ اقبال نے نوجوانوں کے کردار کی تعمیر کے لیے شاہین کا تصور پیش کیا، جو مشکلات کا سامنا کر کے اپنی بلند پروازی کو قائم رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک نوجوانوں میں خود اعتمادی اور بلندی کی خواہش پیدا ہونا ضروری ہے، کیونکہ یہی جذبات انہیں معاشرے کے لیے ایک مثبت قوت بنا سکتے ہیں۔
اقبال کا پیغام آج کے دور میں بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اس وقت تھا جب انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی سوچ دی۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ حقیقی کامیابی سیاسی یا عسکری طاقت میں نہیں بلکہ فکری آزادی اور روحانی بلندی میں ہے۔ اقبال کے نزدیک ایک پْرامن معاشرہ اس وقت ہی تشکیل پا سکتا ہے جب افراد اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر اجتماعی فلاح کے بارے میں سوچیں اور اس کے لیے جدوجہد کریں۔ ان کا فلسفہ خودی، اتحاد، اور تنظیم پر مبنی ہے، جو آج کے معاشرتی مسائل کا حل فراہم کر سکتا ہے۔
اقبال کا پیغام ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ عقل اور عشق کے مابین توازن ایک مثالی معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ضروری ہے۔ ان کے نزدیک عقل کے ساتھ ساتھ عشق بھی انسان کی زندگی میں اہم ہے، کیونکہ یہ اسے دوسرے انسانوں سے ہمدردی اور محبت کا درس دیتا ہے۔ عقل انسان کو علم اور سوجھ بوجھ دیتی ہے، جبکہ عشق اسے انسانیت سے جوڑتا ہے۔ اس توازن کے ذریعے ہی انسان اپنی شخصیت میں ٹھہراؤ پیدا کرتا ہے، جو اسے ایک بہتر انسان اور شہری بننے میں مدد دیتا ہے۔
اقبال کا پیغام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہم اپنے اندر اتحاد، ایمان، اور تنظیم کی صفات پیدا کریں۔ ان کے نزدیک یہ تین اصول ایک پائیدار اور پْرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ ان کی نظر میں ایک ایسی قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جو ان اصولوں کو نظر انداز کرے۔ آج کے پاکستان میں جب ہم فرقہ واریت اور نفرتوں کی آلودگی میں گھرے ہوئے ہیں، اقبال کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ صرف متحد ہو کر ہی ہم اس مشکل صورت حال سے نکل سکتے ہیں۔ اقبال نے فرمایا: 
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک  
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک 
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اس شعر میں اقبال ہمیں اتحاد کی طرف بلاتے ہیں، اور یہ سمجھاتے ہیں کہ ایک پرامن معاشرہ صرف اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب ہم ایک قوم بن کر رہیں اور دوسروں کا احترام کریں۔ پاکستانی نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقبال کی فکر کو اپنائیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔ آج جب پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب زیادہ ہے، ان کے پاس ملک کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اقبال کا پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم خودی، انصاف اور محبت کے اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تو ہم نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ ملک کو بھی ایک مثالی اور پْرامن معاشرہ بنا سکتے ہیں۔
اقبال کا خواب ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں ہر فرد اپنی خودی کو پہچان کر ایک بہتر انسان بنے اور معاشرتی فلاح کے لیے اپنی خدمات پیش کرے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ہر نوجوان اپنے کردار کو بلند کرے اور اس ملک کو امن، ترقی، اور خوشحالی کی طرف لے جائے۔ ان کے پیغام کی روشنی میں ہمیں آج کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ایک بہتر اور پْرامن مستقبل کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اقبال کی فکر کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے اندر مثبت تبدیلی لائیں اور ایک ایسی قوم بنیں جو دنیا میں امن و امان کا نمونہ بن سکے۔
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو 
اْخْوّت کا بیاں ہو جا، محبّت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خْراسانی، یہ افغانی، وہ تْورانی
تْو اے شرمند? ساحل! اْچھل کر بے کراں ہو جا

مزیدخبریں