سردار خالد ابراھیم خان 04نومبر 2018 کوہم سے ہمیشہ جدا ہو گئے تھے۔ یہ شخص کشمیریوں کی توانا آواز تھی۔ ہمیشہ میرٹ اور انصاف کے لئے جدوجہد کرنے والا بے مثال کردار تھا۔ 1990میں جب مسلم کانفرنس حکومت نے بغیر پبلک سروس کمیشن کے 484افراد بطور آفیسر کیڈر بھرتی کئے تو ان میں بڑی تعداد سدھن قبیلے سے تھے۔ وہ سب ان کے پاس حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ ہمیں نکالنے کی تحریک نہ کریں مگر آپ نے اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج جاری رکھا۔ اس احتجاج میں انہوں نے اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔ مجاز اعلیٰ عدالت نے بھی اس بھرتی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ 484 آفیسران فارغ ہوئے۔ خالد ابراھیم بلاشبہ ایک مثالی کردار کا نام ہے۔ھوس اقتدار سے دور تھے۔ اگر چاہتے تو متعدد بار صدر یا وزیر اعظم بن سکتے تھے بہت سے مواقع ملے مگر کسی بھی چور دروازے اور بے اصولی سیاست سے اقتدار میں آنے کی تمنا نہیں کی بلکہ پیشکشوں کو ٹھکراتے رہے۔ شھید بے نظیر بھٹو کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی جماعت جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کو پاکستان پیپلز پارٹی میں ضم کریں اور انہیں وزیر اعظم بنایا جائے مگر ہمیشہ انکار کیا۔ 2009ء میں جب میاں نواز شریف نے آزادکشمیر میں مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ کیا تو میاں صاحب نے خصوصی پیغام دے کر راجہ ظفر اقبال کو انکے پاس بھیجا کہ ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں۔ آزادکشمیر میں مسلم لیگ کے بھی صدر بنائے جائیں گے اور وزیر اعظم بھی۔ میاں نے دلی خواہش پہنچائی مگر مرحوم نے انکار کر دیا۔ میاں نواز شریف اور سردار خالد ابراھیم گورنمنٹ کالج لاہور گریجوایشن کی سطح پر کلاس فیلو رہے اور خالد صاحب کی شخصیت سے واقف تھے اور متاثر بھی تھے۔ انہوں نے میاں صاحب کو یہ کہہ کر معذرت کی کہ میری ریاستی جماعت ہے اسے ختم نہیں کروں گا۔آصف علی زرداری سے خصوصی اچھے تعلقات تھے مگر جب زرداری صاحب صدر پاکستان بنائے گئے تو خالد ابراھیم نے اس فیصلے کی بھرپور مذمت اور مخالفت کی۔ سابق وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے کہا ہم ایک دفعہ اقتدار لے کر خالد صاحب کے پاس حاضر ہوئے مگر ٹھکرا دیا۔ عمران خان خود اسلام آباد ان کے گھر آئے، جماعتی صدارت کی پیشکش کی مگر انکار کر دیا۔ جرنل ضیاء نے جب مارشل لاء لگا کر اقتدار سنبھالا تو غازی ملت سردار محمد ابراھیم خان کو مفاہمت کی پیشکش کی اور صدارت کا عہدہ برقرار رکھنے کی بات کی تو خالد صاحب نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ہم بھٹو خاندان سے بے وفائی نہیں کر سکتے اور فوجی آمریت کی حمایت نہیں کریں گے۔ 2006ء آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے تمام ممبران نے اپنے لئے پنشن کا بل منظور کیا۔ واحد ممبر خالد صاحب نے مخالفت کی اور فرمایا کہ 8اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں لوگ تباہ ہو گئے۔ لاشیں ابھی ملبے کے نیچے ہیں اور ہم اپنی مراعات کا بل منظور کر رہے ہیں۔ یہ شرم کی بات ہے۔ تنخواؤں اور پنشن کی منظوری ہوئی مگر آپ نے نہیں لی۔ اپنی انشورڈ گاڑی حادثے کا شکار ہوئی اور یہ کہہ کر انشورڈ رقم نہیں لی کہ دوران حادثہ میڑا بیٹا گاڑی چلا رہا تھا۔ کھڑک راولاکوٹ مرحوم کے گھر کے ساتھ بلدیہ والوں نے ایک کنال زمین ظاہر کی جس کی قیمت آج 15سے 20کروڑ ہے چوہدری رقیب ڈی سی پونچھ نے خالد صاحب سے اس ضمن میں بات کی۔ ہر لحاظ سے ان کی فیملی کا حق بنتا تھا مگر آپ نے تحقیق کے بعد فرمایا کہ محکمہ مال کے کاغذات میں ہمارے نام نہیں اس لئے ہم اس کے حقدار نہیں۔ مرحوم ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ سینکڑوں ایسے واقعات ہیں جن سے ان کے اعلیٰ کردار و عمل کی ایک لازوال تاریخ سامنے آتی ہے۔ خالد ابراھیم کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں رہا مگر وزیر اعظم اور صدر سے زیادہ عزت تھی۔ عزت مقام اور وقار عہدوں کا محتاج نہیں۔ اسلام آباد F/8کا گھر جب فروخت ہوا تو ایک پارٹی سے محض زبانی سودا ہوا دوسرے روز ایک اور پارٹی آئی جس نے زیادہ قیمت کی پیشکش کی مگر خالد صاحب نے کہا پیسوں کی لالچ میں ہم ایفائے عہد ختم نہیں کرتے ایڈوانس بھی نہیں لیا تھا۔ وعدہ خلافی نہیں کی۔ پہلی والی پارٹی کو ہی کم قیمت لے کر گھر دے دیا۔ بقول مرحوم کے برادر اکبر سردار جاوید ابراھیم میرا بھائی وکھرے ٹائپ کا آدمی ہے۔ خالد ابراھیم مرحوم ایک سفید پوش آدمی تھے۔ ذرائع آمدن محدود تھے۔ الیکشن میں مقروض ہو گئے تو اسلام آباد کا ذاتی گھر فروخت کرکے قرض ادا کیا۔ کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ دوست اربوں روپے کی پیشکش کرتے تھے مگر کبھی کسی سے کچھ نہیں لیا۔ غازی ملت والد کی صدارت کے دوران کبھی سرکاری گاڑی یا سرکاری گھر استعمال نہیں کیا۔ غازی ملت والد کی میت اسلام آباد سے راولاکوٹ بذریعہ سرکاری ہیلی کاپٹر لانے کی حکومت نے پیشکش کی مگر آپ نے انکار کر دیا۔ آپ اقوام متحدہ کی رائے شماری کی قراردادوں کے مطابق مس?لہ کشمیر کا حل چاہتے تھے۔ تقسیم کشمیر یا صوبہ بنانے کے سخت مخالف تھے۔ صدر جرنل پرویز مشرف مظفرآباد آئے تو واحد خالد ابراھیم تھے جنہوں نے پرویز مشرف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تقسیم کشمیر کے فارمولے کی مخالفت کی۔ آپ نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کیا کہ واقعی تاریخ کشمیر کے اصل وارث ہیں۔ مرحوم 05نومبر 1947ء راولاکوٹ میں پیدا ہوئے۔ گریجوایشن گورنمنٹ کالج لاہور سے کی۔ بھٹو شھید کی سیاست اور نظریات سے متاثر تھے۔ 1973ء میں پیپلز پارٹی میں شمولیت سے سیاست کا آغاز کی۔ 1976ء میں انکی شادی ہری پور کے مشہور خاندان میں میجر جنرل عبدالرحمٰن کی بیٹی سے ہوئی۔ جنرل صاحب بیرون ممالک سفیربھی رہے۔خالد صاحب کی اھلییہ ایوب خان کی بھانجی ہیں۔ خالد صاحب نے جمہوریت کی بحالی اور مضبوطی کے لئے طویل ترین جدوجہد کی۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف جلوس کی قیادت کرتے ہوئے پولیس سے تصادم میں ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ زخمی حالت میں پلندری جیل میں قید رہے۔ 1990ء میں حلقہ 4پونچھ سے بھارتی اکثریت سے الیکشن جیتا اور متعدد بار اسمبلی ممبر منتخب ہو کر میرٹ اور انصاف کے مطابق عوام کی خدمت کرتے رہے۔2018ء میں قانون ساز اسمبلی میں ججز کی تعیناتی پر کی گئی خالد ابراھیم صاحب کی تقریر پر چیف جسٹس سپریم کورٹ چوہدری ابراھیم ضیاء نے نوٹس لیا اور توہین عدالت کا کیس بنایا۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام تھا۔ اسمبلی میں کی گئی تقریر پر ممبران اسمبلی کو تحفظ حاصل ہے ججز کی تقرری پر مرحوم کا اعتراض درست اور جائز تھا۔ ان کا کوئی ذاتی مسئلہ نہ تھا۔ اصلاح احوال اور میرٹ اور انصاف کی بات تھی۔ خالد ابراھیم کا نام زندہ رہے گا۔ سابق چیف جسٹس نے سردار خالد ابراھیم کو بذریعہ پولیس حاضر عدالت ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔ اسی دوران 3نومبر کی شام خالد ابراھیم صاحب کی دماغ کی شریان پھٹ گئی ہسپتال پہنچائے گئے مگر 4نومبر کو یہ عظیم شخصیت دارِ فانی سے کوچ کر گئی۔2018ء میں موجود اسمبلی آزادکشمیر، اس کے سپیکر اور وزیر اعظم کا اس حوالے سے کردار مثبت نہیں رہا۔ سب تماشائی بنے رہے۔ وزیر اعظم، سپیکر اور ممبران اسمبلی کی یہ ذمہ داری تھی کہ پارلیمانی کمیٹی بنا کر مسئلہ حل کرتے۔ یہ قرارداد منظور کرتے کہ ممبران اسمبلی کو آئین میں اسمبلی میں کی گئی تقریر پر تحفظ حاصل ہے۔ کسی بھی ذمہ دار شخص نے اخلاص سے یہ مس?لہ حل کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ حکومت ثالثی کا کردار ادا کرکے مس?لہ حل کر سکتی تھی مگرمجرمانہ غفلت کی گئی۔ سردار خالد ابراھیم کا اعتراض اپنی ذات، جماعت یا خاندان کے لئے نہیں تھا۔ 5نومبر 2018ء راولاکوٹ صابر شھید سٹیڈیم میں تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ بلا مبالغہ ہر طرف لوگوں کے سر ہی نظر آرہے تھے۔ لوگوں کے جمِ غفیر اور ہر آنکھ اشکبار دیکھ کر یہ معلوم ہو رہا تھا کہ واقعی خالد ابراھیم دلوں پر حکمرانی کرنے والی عظیم شخصیت تھے۔ آج ان کی برسی کے موقع پر ان کی عظیم خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اورانکے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہیں۔