ترمیمی بلوں پر شیر و شکر اور زورا زوری کے مناظر 

سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانے کا معاملہ تو عدالت عظمیٰ میں آئینی بنچوں کے ساتھ منسلک تھا جو پارلیمنٹ کی منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت تشکیل دیئے جا رہے‘ تاہم یہ تعداد 17 سے 25 کرنے کا عندیہ مل رہا تھا اور عمران خان کے سینئر وکیل حامد خان ہائیکورٹوں میں بھی ججوں کی تعداد میں اضافہ کا تقاضا کر رہے۔ اب پارلیمنٹ نے گزشتہ روز جو ترمیمی بل اور ساتھ ہی ساتھ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی قانون سے متعلق بل منظور کیا ہے‘ اسکے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 25 کی بجائے 24 تک لے جانے کی منظوری دے دی گئی جس سے یار لوگوں میں بحث مباحثے کیلئے نئے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ ایک جائز بحث یہ سامنے آرہی ہے کہ جب السام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تعداد بھی بڑھا کر 12 تک لے جانے کی منظوری دی گئی ہے تو اس معاملہ میں دوسری ہائیکورٹوں کو کیوں درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا جہاں ججوں کی تعداد بڑھانا تو کجا‘ وہاں ججوں کی خالی اسامیاں بھی ابھی تک پُر نہیں کی گئیں۔ ججوں کی تعداد بڑھانے کی اصل ضرورت تو ہائیکورٹوں میں ہی ہے جہاں سالہا سال سے لاکھوں مقدمات زیرالتواء ہیں اور سائلین اپنے مقدمات میں انصاف کی راہ تکتے تکتے قبروں تک جا پہنچے ہیں۔ پھر حامد خان صاحب کے کم از کم اس تقاضے کی ہی لاج رکھ لی جاتی مگر شاید ترجیحات کچھ اور ہوں گی اور سیاسی مقاصد کی پوٹلی میں ہائیکورٹوں کے ججوں کی تعداد میں ماسوائے اسلام آباد ہائیکورٹ کے‘ اضاقے کو اپنی سیاسی مجبوری بتایا ہی نہیں گیا ہوگا۔ 

بھائی صاحب! عدل گستری سے متعلق فیصلے سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر کئے جائیں گے تو زبانوں پر امڈتے سوالات کو باہر نکلنے سے بھلا کیسے روکا جا سکتا ہے۔ سو سوالات انڈتے‘ پھڑکتے نظر آرہے ہیں‘ امڈتے سوالات تو یقیناً سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے سے متعلق ہیں مگر پھڑکتے سوالات سروسز چیف کی مدت بڑھا کر پانچ سال سے متعلق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے یکایک لائے گئے اور پھر یکایک منظور کرائے گئے بل پر اٹھ رہے ہیں۔ یہ سوالات استفہامیہ سے زیادہ حیرت میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ اس یبل کو تو منظوری کیلئے اپوزیشن کیکسی مزاحمت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا ماسوائے اسکے کہ اس بل کی شق وار منظوری کے مراحل میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ارکان نے اس کا ہاں میں جواب نہیں دیا۔ اس طرح سمجھا جائے تو یہ بل ’’ہاں‘‘ کے غلبے میں ’’نہ‘‘ کے مفقود ہونے کے باعث اتفاق رائے سے ہی منظور ہوا جبکہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے ساے متعلق بل میں تو حکومتی اور اپوزیشن ارکان باہم گتھم گتھا ہوتے بھی نظر آئے اور وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ اور اپوزیشن کے رکن شاہد خٹک کے مابین ہاتھا پائی کے ناگوار مناظر بھی دیکھے گئے۔ 
ان دونوں بلوں کی منظوری کے حوالے سے جو مناظر سامنے آئے‘ وہ قابل اجمیری کے اس شعر کی عکاسی کر رہے تھے کہ:
وہی زباں‘ وہی باتیں‘ مگر ہے کتنا فرق
تمہارے نام سے پہلے‘ تمہارے نام کے بعد
اس منظرنامے میں اپوزیشن جو زبانیں ججوں کی تعداد میں اضافے سے متعلق بل پر شعلے اگلتی ہوئی نظر آرہی تھیں‘ وہ سروسز چیفس کی مدت منصب میں اضافے کیلئے اچانک پیش کئے گئے بل پر ’’زمیں جنبد‘ نہ جنبد گل محمد‘‘ کی تصویر بن گئیں۔ 
اس فرقِ ناطقہ کی ایک وجہ تو پی ٹی آئی کے اپنے دور میں سروسز چیف کی میعاد منصب میں توسیع کیلئے پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے منظور کرائے گئے بل کی بنیاد پر سامنے لائی جا سکتی ہے کہ آپ نے خود اس کام کی ابتداء کی تو اب اسی کام کی مزید توسیع والے کام کی کس زبان سے مخالفت کی جائے۔ رانا ثناء اللہ نے تو اس بل کی منظوری کے حوالے سے یہ نکتہ بھی نکال لیا ہے کہ اس بل کے ذریعے درحقیقت سروسز چیفس کی مدت منصب میں درحقیقت کمی کی گئی ہے جبکہ اس سے قبل تو ہی ایک آرمی چیف کا منصب دس دس گیارہ گیارہ سال تک چلتا رہا ہے۔ سبحان اللہ۔ ماورائے آئین اقدامات کو ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی آئینی تحفظ دینے میں کبھی نہیں چوکتی اور ایسے اقدامات کے تحت جن کا اقتدار لپٹا جاتا رہا ہے‘ وہ بھی پارلیمنٹ کے فورم پر ان اقدامات کو آئینی کور میں سجا کر محفوظ کرنے پر بخوبی آمادہ ہیں۔ 
اب کی بار اپوزیشن بنچوں کی سروسز چیفس کے منصب کی مدت بڑھانے پر خاموشی یعنی نیم رضا مندی کا پس منظر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کیلئے امید کے سارے دروازے ایک ایک کرکے بند ہو رہے ہیں۔ آخری امید کی جوت امریکی صدر کے انتخابات میں ٹرمپ کی ممکنہ کامیابی کے ساتھ وابستہ ہوئی تھی مگر جب یہ محسوس ہوا کہ ٹرمپ منتخب ہو کر بھی عمران خان صاحب کو یکایک جیل سے نکال باہر لانے اور اسی وقت پر اقتدار کی مسند پر بٹھانے کیلئے کوئی عملی کردار ادا نہیں کر پائیں گے تو انہوں نے ممکنہ طور پر یہی سوچا ہوگا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پانچ سال کی ہونے جا رہی ہے تو اسکی مخالفت نہ کرکے انکے ساتھ مفاہمت کا کوئی راستہ نکال لیا جائے۔ بعینہ پی ٹی آئی نے یہی حکمت عملی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کے تقرر کے معاملہ میں اختیار کی کہ کھڑاک کرنے کا عندیہ جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس نہ بنائے جانے پر دیا جا رہا تھا اور سخت مزاحمت کے پیغامات وکلاء برادری میں سے حامد خان صاحب جیسے ’’دلاوروں‘‘ کی جانب سے بھی مل رہے تھے مگر جسٹس یحییٰ آفریدی کا اس منصب پر تقرر ہو گیا تو انہی سارے دلاوروں کی جانب سے ان کیلئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار ہونے لگا۔ تو جناب! یہی سیاست ہے اور اس سیاست میں سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ خرابی تبھی درآتی ہے جب اس مفاداتی سیاست میں ریاستی اداروں کو بھی دھکیلا اور رگیدا جاتا ہے جن پر خواہ مخواہ ایک پارٹی کا حامی اور دوسری پارٹی کا مخالف ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد میں ججوں کی تعداد بڑھانے کی بھی بادی النظر میں یہی سیاست ہے۔ سپریم کورٹ میں آٹھ ججوں کا ایکا توڑنے کی نیت کارفرما ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں چھ ججوں کا کیا توڑنا مقصود ہے۔ خوش فہمی یہی ہوگی کہ تقرر پانے والے نئے جج یہ بل منظور کرانے والوں کو گرین سگنل دینگے اور جو کام آٹھ اور چھ جج اپنی اپنی سطح پر اپنی ممدوح سیاسی قیادت کیلئے مبینہ طور پر سرانجام دے رہے تھے‘ اسکے اثرات نئے تقرر پانے والے جج عدالت عظمیٰ اور متعلقہ عدالت عالیہ میں اکثریت بنا کر زائل کر دیں گے۔ مگر حضور! اس بھٹکے ہوئے سسٹم کو اصل ضرورت تو آئین کی پاسداری اور انصاف کی عملداری کی ہے جس کے انصاف کے فورموں پر مفقود ہونے کے باعث ہی پورا سسٹم لرزتا نظر آرہا ہے۔ اگر اب بھی ٹامک ٹوئیاں اپنی اپنی مرضی کا انصاف لینے کیلئے ماری جارہی ہیں تو پھر:
نہ تم سمجھے‘ نہ ہم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیئے اپنی جبیں سے 
آپ نے کان ہی پکڑنے ہیں‘ سیدھے سبھائو پکڑ لیں یا ہاتھ کو الٹا گھما کر۔ 

ای پیپر دی نیشن