آئین 1973 …ترامیم کی داستان جمیل

Nov 06, 2024

طلعت عباس خان

آئین پاکستان 1973 کی پہلی ترمیم میں پاکستان کے حدود اربعہ کا دوبارہ تعین کیا گیا …دوسری ترمیم میںقادیانیوں کو غیر مسلم  اقلیت قرار دیا گیا…تیسری ترمیم1975 اس ترمیم میں  Detention  Preventive  کی مدت کو بڑھایا گیا، Detention  Preventive  کا مطلب ہے کسی ایسے شخص کو نامعلوم مقام پر رکھنا جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو… چھوتی ترمیم 1975 اس  میں اقلیتوں کو پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں…پانچویں ترمیم 1976 میں لائی گئی۔ اس میں ہاء  کورٹ کا اختیار سماعت وسیع کیا گیا… چھٹی ترمیم 1976میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرڈمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی …ساتویں ترمیم 1977 میں وزیر اعظم کو یہ پاور دی گئی کہ وہ کسی بھی وقت  عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے… آٹھویں ترمیم 1985 میںپارلیمانی نظام سے سیمی صدارتی نظام متعارف کروایا گیا اور صدر کو اضافی پاورز دی گئیں… نویں ترمیم 1985 میںشریعہ لاء   کو لاء  آف دی لینڈ کا درجہ دیا گیا… دسویں ترمیم 1987میں پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا کہ دو اجلاس کا درمیانی وقفہ 130 دن سے نہیں بڑھے گا… گیارھویں ترمیم 1989 میںدونوں اسمبلیوں میں سیٹوں کی ریویڑن کی گئی… بارھویں ترمیم 1991 میںسنگین جرائم کے تیز ترین ٹرائل کے لئے خصوصی عدالتیں عرصہ 3 سال کے لئے قائم کی گئیں…تیرھویں ترمیم میں1997`صدر مملکت کی نیشنل اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم ہٹانے کی پاورز کو ختم کیا گیا…چودھویں ترمیم 1997` میں ممبران پارلیمنٹ میں نا اہلی کے نقائص پائے جانے کی  صورت میں ان کو عہدوں سے ہٹانے کا قانون وضح کیا گیا… پندرھویں ترمیم 1998` میںشریعہ لاء   کو لاگو کرنے کے بل کو پاس نا کیا گیا… سولہویں ترمیم 1999` میںکوٹہ سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کی گئی …سترھویں ترمیم 2003` میںصدر مملکت کی پاورز میں اضافہ کیا گیا… اٹھارویں ترمیم 2010` این ڈبلیو ایف پی کا نام تبدیل کیا گیا اور آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیا، صدر  مملکت کی نیشنل اسمبلی تحلیل کرنے کی پاور کو ختم کیا گیا… انیسویں ترمیم 2010` میں اسلام آباد ہائی کورٹ قائم کی گئی، سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضح کیا گیا…بیسویں ترمیم 2012` میں صاف شفاف انتخابات کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا… اکیسویں ترمیم 2015` میں سانحہ  اے پی سی کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں .بائیسویں ترمیم 2016` میں چیف الیکشن کمیشن کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا کہ بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکیں گے. تئیسویں ترمیم 2017` میں 2015 میں قومی اسمبلی نے اکیسویں ترمیم میں 2 سال کے لئے ملٹری کورٹس قائم کیں۔ یہ دوسال کا دورانیہ 6 جنوری 2017 کو ختم ہو گیا،اس تئیسویں ترمیم میں ملٹری کورٹس کے دورانیے کو مزید 2 سال کے لئے 6 جنوری 2019 تک بڑھایا گیا. چوبیسویں ترمیم 2017` میں مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کو دوبارہ تشکیل دیا گیا…پچیسویں ترمیم 2018` میں فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ملانے کے لئے صدر  مملکت نے 31 میں 2018 کو دستخط کئے. چھبیسویں ترمیم 2024` میں یہ آئینی ترمیم 20 اکتوبر 2024 کو ایوان سے منظور ہوئی جب کہ پارلیمنٹ سے اسکی منظوری کا اجلاس اس کے بعد شروع ہوا جو 21 اکتوبر تک جاری رہا، اس مسودہ  کو 18 اکتوبر 2024 کو ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے حتمی شکل دی جس میں 11 صفحات اور 26 ترامیم شامل ہیں، یہ ترمیم عدالتی عمل کی مختلف پہلوؤں کو تبدیل کرنے اور عدالتی اختیارات کی وضاحت کرنے اور قانونی طریقہ کار میں ردوبدل کرنے کی کوشش کرتی ہے . اس ترمیم میں ابہام ہے جسکی وجہ سے ستائیس ویں ترمیم کا انا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ امید ہے  یہ ترامیم بھی جلد آ جائے گی۔یہاں قانون ہے آئین ہے۔ مگر ادارے اس ہر عمل نہیں کرتے۔ جن کا کام ہے قانون اور ائین پر عمل کرانا وہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔  ابھی کل ہی کی بات ہے۔ ہم سپریم کورٹ کی جانب رواں دواں تھے جب سرینہ کے سگنل پر پہنچے تو تمام ٹریفک کو سرینگر پر جانے کو موڑ رکھا تھا۔ یاد رہے یہ سرینہ چوک اس وقت بند رکھا جاتا ہے جب غیر ملکی کرکٹ ٹیم اس ہوٹل میں ہوں۔ اب ایسا نہیں تھا اس کے باوجود ٹریفک پولیس نے وہاں سے گزرنا بند کر رکھا تھا۔ اس کے بعد نادرہ کا راستہ ہے جہاں بڑے بڑے لوہے کے گیڈ لگا رکھے ہیں۔ جب چائتے ہیں بند کر دیتے ہیں جب چاہتے ہیں کھول دیتے ہیں۔ اس سے آگے سپریم کورٹ کا ہوٹل ہے جس کا راستہ الیکشن کمیشن سے گزرتا ہے۔ یہ سڑک کافی عرصے سے کنٹینر لگا کر نہ صرف گاڑیوں کا بلکہ پیدل چلنے والوں کا راستہ بھی بند کر رکھا تھا۔ وکلا کے نمائندے کوششیں کر رہے تھے مگر یہ راستہ کھل نہیں رہا تھا۔ اسی ہوٹل میں وکلا کی ایک تقریب تھی۔ اس تقریب میں جب وزیر داخلہ محسن نقوی سے میرا آمناسامنا ہوا تو درخواست کی کہ اس راستے کو کھول دیا جائے میری درخواست سے پہلے سید منظور گیلانی ایڈووکیٹ  نے بھی ان سے یہی درخواست کر رکھی تھی۔ وزیر داخلہ صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اج شام کو افس جا کر اس کو کھولا دونگا۔ لیکن دو ہفتے بعد بھی اس ہر عمل نہ ہوا۔ میں نے اس وعدے کا ذکر اپنے کالم میں کیا۔ میرے اس کالم کو وکلا لیڈر احسن بھون صاحب نے یہ کالم وزیر داخلہ کو واٹس آپ کیا۔ جناب منسٹر صاحب نے جسکا تفصیلی جواب دیا مجھے یہ جواب احسن بھون نے واٹس اپ کیا۔ لیکن راستہ نہ کھولا گیا۔ ہمارے وکلا سینٹر کامران مرتضی سے کہا کہ ہمارے وزیر داخلہ آپ کے ہمارے سینیر ہیں اپ کی ان سے سینٹ  سیشن کے دوران ملاقات ہوتی ہے۔ ان سے ملکر ہمارا راستے کا مسئلہ تو حل کروائیں۔ انہوں نے مہربانی کرتے ہوئے اس پر عمل کیا۔ راستہ کھول کر اس کی وڈیو بھی مجھے سینڈ کی۔ یوں تو اب ہمارے تمام وکلا  اس راستے سے مستفید ہو رئے ہیں۔خوش ہیں۔ مجھے یہ خوشی یوں لگی جیسے راستے میں  پڑے پتھر کو ہٹانے سے کسی کو ملے۔ کل جب یہاں سے گزرنے لگا تو ایک پولیس کا حوالدار اور سیکورٹی گارڈ نے بیریر لگا کر مجھے گزرنے روک دیا۔ کہا ہمیں الیکشن کمیشن والوں نے وکلا کو گزرنے سے منع کر رکھا ہے۔ اسے تفصیل سے ساری بات سمجھائی لیکن بحث کرتا رہا۔ اس کے بڑے پیٹ سے لگ رہا تھا کہ یہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ کاش ڈیوٹی سے پہلے اسے کسی نے بتایا ہوتا کہ کس کو یہاں سے گزرنے دینا تو یہ وقت ضائع نہ کرتا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ ان سے کچھ نہیں ملے گا تو پھر جانے دیا۔ اس دوران مجھے ایک ایس پی صاحب کا واقعہ یاد آگیا۔ان کی یہ وڈیو بہت وارل ہوئی تھی، اس نے بتایا میری نئی نئی شادی اور نئی پروموشن ایس پی اسلام آباد ہوئی تھی  میں پولیس کی کارکردگی دیکھنے کو اپنے دوست کی کار پر مختلف پولیس کے ناکوں سے شام کو گزر ریا تھا۔ ہر ناکہ والا کہتا نکاح نامہ دکھاؤں ورنہ تھانے چلو۔ ایسے تین چار ناکوں پر کسی کو دس ہزار کسی کو پندرہ ہزار دیتا رہا۔ جب فایئو سٹار ہوٹل سے ملحق ناکے میں پہنچا تو پولیس والے نے میری بیگم پر طنزیہ فقرے کسے جسے برداشت کرنا مشکل ہوگیا پھر میں نے اس ایریا کے ایس ایچ او کو بتایا کہ ان سب سے میرے پیسوں واپس دلوائیں انہیں لے کر اس ناکے پر پہنچوں۔ کاش ان کے خلاف یہ ایکشن لیتے تو کچھ بہتری آتی۔ ان میں قربانیاں دینے والے دلیر پولیس افسر ایس ایس پی اسلام آباد ملک جمیل ہیں جن کا جلسے جلوسوں کے دوران بڑی جوانمردی سے ان کے ساتھ مقابلہ کیا اس دوران انکا پاؤں فریکچر ہوگیا تھا لیکن انہیں کسی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔ جب کہ ایوارڈ کے حق دار تھے۔اسلام آباد کے سپاہی رفیع اللہ دوہزار پانچ میں پولیس ڈیوٹی میں دہشتگردوں سے مقابلے میں شہید ہو? تھے حکومت نے ان کے نام آئی چودہ کے سب سے بڑے چوک کا نام اس شہید کے نام سے منسوب کر دیا ہے۔ اب اسی سال ان کے بیٹے سپاہی  ریحان علی نے ڈاکوؤں سے دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے خود بھی گولی لگنے سے زخمی ہوا اس پر وفاقی حکومت  نے بہادری کا بڑا اعزاز شجاعت میڈل سے  اسے نوازا ہے۔ حکومت کا فرض ہے اچھے کارگردگی کے مالک سرکاری ملازم کو نواز کریں اور بری کارکردگی والوں کو سزائیں دیا کریں۔کاش جتنی زور سے آئین میں ترمیم کرتے ہیں  اسی زور سے ائین پر عمل بھی کیا کریں اور کروایا بھی کریں۔

مزیدخبریں