روحانیات کا عقیدہ قریباً تمام مذاہب میں ملتا ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے روحانیات سے مراد یہ ہے کہ انسان عبادات و روحانیت کے ذریعے پاکیزگی و طہارت کی اس منزل پر پہنچ جائے، جہاں اْنکے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن بھی منور ہوتا نظر آئے۔ بطور اشرف المخلوقات انسان دیگر تمام مخلوقات بشمول فرشتے، جنات وغیرہ سے برتر ہے۔ لیکن یہ اصطلاح حقیقتاً صرف اْن انسانوں کے لیے ہے جو اللہ کے عشق میں، اللہ کی رضا کے لیے تمام تر دنیاوی نعمتوں سے منہ موڑ لیتے ہیں اور ہر طرف سے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی کا محور و مقصد محض رضائے الہٰی بنا لیتے ہیں۔ ایسے افراد کو اسلام میں ولی اللہ، مسیحیت میں مقدس سینٹ، سکھ مذہب میں گرو جبکہ ہندو مذہب میں اوتار کہا جاتا ہے۔
روحانیت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ روحانیت تعویز گنڈوں، عملیات یا دعائوں کا نام نہیں، بلکہ روح کی حقیقت سے آشنا ہو کر خالق حقیقی سے ظاہری ہی نہیں، باطنی بھی حقیقی رابطہ قائم کرنا ہے۔ معروف بزرگ محی الدین ابن عربی کیمطابق روحانیت آپ کو وجودی معرفتِ الٰہی کے وہ مشاہدے عطا کرتی ہے جن کا آخر ہی اْن کا اوّل ہوتا ہے۔ بس نہ کوئی اوّل ہوا، نہ آخر۔ جان لو کہ اللہ کے حروف میں بہت سے راز چھپے ہیں۔ اللہ کے حروف وہ پوشیدہ علم ہے جس سے انبیاء کرام اور اولیا عظام استفادہ کرتے تھے۔
حکیم ترمذی کا قول ہے، روحانیت اور عاملیت میں بڑا واضح فرق ہے۔ روحانیت اللہ سے تعلق جوڑتی ہے جبکہ عاملیت، وظائف، منتروں اور تعویز گنڈا کے ذریعے اللہ سے قائم تعلق کو بگاڑتی ہے اور یہ شرک کا موجب بھی بنتی ہے۔ کتابوں میں علم تاریخ کابھی ذکر آیا ہے۔ علم تاریخ سے مراد گزرے ہوئے ٍواقعات کو جاننا ہے۔ ’’تاریخ‘‘ انسان کی یادداشت کا وہ بیش بہا خزانہ ہے جس پر چل کر انسان اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ کسی انسان کی یاد داشت کھو جائے تو وہ کسی قابل نہیں رہتا۔ اپنے ماضی سے کٹ کر گزشتہ باتوں کو بھلا کر انسان اپنی زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ تاریخ صرف اور صرف انسانی یادوں کو محفوظ کر کے اور اْس کی قوت حافظہ کا تحفظ کرتے ہوئے انسان کو ایک ایسا راستہ فراہم کرتی ہے جس پر چل کر وہ اپنی منزل پا لیتا ہے۔ علم تاریخ کی اپنی ’’تاریخ‘‘ بہت پرانی ہے۔ تاریخ کی اہمیت اور مقصدیت کا اندازہ اس چیز سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں خود انبیاء علیہم السلام کے واقعات جو تاریخی نوعیت کے ہیں، بیان کرتا ہے۔ جس سے انبیاء کے حالات اور اْس دور کے علم کا ہمیں ادراک ہوتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے علم تاریخ ایسا علم ہے جس کا آغاز انسان کے ساتھ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے خود تاریخی واقعات کو بیان کیا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دونوں جہانوں کی ساری حقیقتیں بیان کر دی ہیں۔ دعا بھی اللہ کے ہاں اپنی فریاد پہنچانے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ قرآن پاک کا ہر ایک لفظ مقصدیت لیے ہوئے ہے۔ قرآنی الفاظ میں ایسے راز چھپے ہیں اگر ہمتلاش کر لیں تو ہمیں بہت کچھ مل سکتا ہے۔
میری آبائی تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ ہے جس کے نواح میں ایک چھوٹی سی بستی کوٹ قاضیاں ہے۔ قاضی خاندان سے ہوں۔ میرے باپ دادا یہیں آ کر آباد ہوئے۔ ’’کوٹ قاضیاں‘‘ اْنھی کے نام سے موسوم ہے۔ جی ٹی روڈ پر شہر وزیرآباد سے گجرات کو جائیں تو دس پندرہ منٹ کی مسافت پر کوٹ قاضیاں آ جاتا ہے۔ ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی بعد ازاں تعلیم مکمل کر کے بینک کی نوکری سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔
ہمارا گھرانہ شروع سے ہی کٹر مذہبی ہے۔ لہٰذا دینی علوم میں میرا شغف اوائل عمر سے ہی تھا۔ اساتذہ سے بھی کمال فیض حاصل کیا۔ بینک کی نوکری چھوڑنے کے بعد ادب سے میرا رشتہ جْڑا اور گہرا ہوتا گیا۔ لکھنے کی امنگ ایسے جاگی کہ باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔ تاہم اللہ کے کلام سے بھی غافل نہیں رہا۔ بزرگوں کی رہنمائی اور ریسرچ نے بتایا اللہ کے کلام سے بڑا کوئی اور کلام نہیں۔ سچ یہی ہے۔ قرآن کے ہر ایک لفظ کی اپنی افادیت اور اہمیت ہے۔ بہت سے معاملات میں قرآن کی آیتیں اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں اور مصیبتوں میں گھرے انسانوں کی رہنمائی کرتی ہیں۔
دو دہائی قبل جب شدید علیل ہوا، بیماری کی تشخیص ہوئی تو پتا چلا کہ مجھے کینسر ہے۔ بے حد مشکل اور پریشانی کی گھڑی تھی۔ لاہور کے بڑے کینسر ہسپتال نے تو جواب دے دیا۔ بیماری کی سٹیج کچھ ایسی تھی کہ ہسپتال کا اپنے رولز کے مطابق مجھے انکار کرنا بنتا تھا۔ علاج سے انکار کے باوجود مایوسی کا شکار نہیں ہوا۔ امید نہیں توڑی، نا ہمت ہاری۔ اللہ سے رجوع کیے رکھا۔ مسلسل ایک مخصوص وظیفے کا ورد شرو ع کردیا۔ آتے جاتے، اٹھتے بیٹھتے اللہ کا کلام پڑھتا۔ اس دوران انمول کینسر ہسپتال سے رابطہ کیا تو ڈاکٹروں نے میرے علاج کی حامی بھر لی۔ کیمو تھراپی کے ذریعے میرا علاج شروع ہوا، مہنگی مہنگی دوائیاں بھی لانی پڑیں۔ تاہم دوران علاج اللہ کا کلام پڑھنا نہیں چھوڑا۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب ڈاکٹروں نے یہ نوید سنائی کہ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ کینسر سے ہمیشہ کے لیے مجھے نجات مل گئی ہے۔اس کے بعد مستقل طور پر میرا ناتا علم روحانیت سے جڑ گیا۔ چند ہی برسوں میں دیکھا جس جس کو بھی کسی مسئلے پر اللہ کا کلام بتایا، اْسے فیض ملنے لگا۔ بات کچھ حلقوں تک پہنچی، ان میں نیاز حسین لکھویرا بھی شامل تھے جو ماضی میں ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل رہ چکے ہیں۔ سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھتے ہیں بہت شستہ اردو بولتے ہیں۔ دھیمے لہجے کے بہت نفیس انسان ہیں۔جناب نیاز لکھویرا نے ’’بہاولپور پر سٹیج‘‘ کے نام سے ایک ادبی و ثقافتی تنظیم بنا رکھی ہے جس کا ہیڈ آفس لاہور ہی میں ہے۔ اس ادبی و ثقافتی تنظیم سے ایسے افراد وابستہ ہیں جو ادب و ثقافت میں بڑا نام رکھتے ہیں۔نیاز حسین لکھویرا نے 29 اکتوبر کی سہ پہر الحمرا لاہور آرٹس کونسل کی ادبی بیٹھک میں روحانیت کے حوالے سے میرے اعزاز میں ایک خوبصورت بیٹھک سجائی۔ جس کا مقصد ادب کے ساتھ ساتھ علم روحانیات پر روشنی ڈالنا تھا۔ مجلس کا وقت تین بجے مقرر تھا۔ کافی لوگ پہلے ہی آ گئے۔ کچھ مقررہ وقت کے بعد آئے تاہم ادبی و روحانی اس بیٹھک میں کافی لوگوں کا اجتماع تھا۔ ادب و ثقافت سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ وکلاء کی بھی کثیر تعداد نے بیٹھک میں شرکت کی۔مقررِ خاص کی حیثیت سے زندگی کی مختصر روداد سنائی۔ خصوصی طور پر اس بات کا احاطہ کیا کہ اللہ کے کلام میں کتنی برکات ہیں۔ سوال جواب کا بھی سیشن ہوا۔ حاضرین میں سے کچھ نے اپنے مسائل بیان کیے اور حل پوچھا۔ جن کا قرآن کی روشنی میں حل بتایا۔ قرآنی آیات میں سے کچھ لفظ تجویز کیے کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے انھیں کیا پڑھنا ہے۔ بیٹھک دو گھنٹے تک جاری رہی جو بعد ازاں بہت سی یادوں کے ساتھ نہایت احسن طریقے سے اختتام پذیر ہوئی۔
روحانیت کی ایک نشست
Nov 06, 2024