ہماری امریکہ کے ساتھ بچپن کی یادیں کھلونوں بیگ بستوں کچھ فراکوں اور میکسیوں تک ہی محدود ہے اور ہم انہیں آج تک اپنا اثاثہ بنانے بیٹھے ہیں۔ ہاں اب کبھی کوئی میڈیسن یا دوسری کوئی اور چیز بھی مل ہی جاتی ہے۔
ابو دوران ملازمت امریکہ کئی بار گئے اور ہمیشہ ہمارے لیے کچھ نہ کچھ لاتے رہے۔ ہماری ماؤں کو عادت ہوتی یے کہ چیزیں سنبھال کر رکھتی ہیں اور استمال کی چیزیں خاص کر کہتی ہیں بڑے ہو کر استمال کرنا۔ ہم بچے تھے ہمارے لائے ہوئے بیگ بستے بڑے بڑے تھے سو ہمیں حکم تھا وہ آٹھویں میں جب ہوں گے تب سکول لے کر جایا کریں گے یہاں بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ امریکا سے آئی ہوئی چیزیں اتنی مضبوط اور پائیدار تھیں کہ سال ہا سال استعمال کے بعد بھی وہ ویسی کی ویسی مضبوط اور پائیدار رہتی تھیں۔
ہم اگر کوئی میڈیسن منگوائیں وہ بھی ایک نمبر ہوتی ہے۔ وہی میڈسن ہم تیار کریں ہم اس کے کئی درجات بنا دیتے ہیں۔ مستند اور سرٹیفائیڈ ادارے معیاری ادویات تیار نہیں کر رہے جس کے نتیجے میں نہ افاقہ ہوتا ہے نہ کوئی اثر کئی خیال ذہن میں آتے ہیں۔ ہم جس دین کے پیروکار ہیں وہاں دھوکے اور ملاوٹ کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اور یہاں تک بھی کہ جھوٹ بول کر چیز بیچنے والے کی چیز بک تو جائے گی لیکن برکت نہیں رہے گی۔ یہ
ہم سب سمجھتے ہیں مگراپنے دنیاوی فائدے کی خاطر بڑے اور ہمیشہ رہنے والے فائدے کو بھول جاتے ہیں اور پھر دنیا کے رہتے ہیں نہ دین کے۔
پوری دنیا میں الیکشن ہوتے ہیں لیکن اتنا چرچہ کبھی کسی ملک کے ایکشن کانہیں ہوا جتنا امریکہ میں ہونے والے الیکشن کا ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو تو جیسے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ نہ فضائی آلودگی نہ سموگ کی پریشانی۔
ہمارے شہر میں سانس لینے دشوار ہوئے پڑے ہیں اور یہاں خبر پہ خبر چلتی ہے کہ ٹرمپ جیتے گا تو یہ ہو گا۔اور اگر دیوی کملا ہارس جیت گئی تو وہ ہو گا۔
ہمارے اندازے ہمارے حق میں کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے۔بھئی کوئی بھی جیتے ابھی وہ جیتنے کے دو تین ماہ بعد اقتدار سنبھالیں گے۔ پھر انہیں اپنے ملک میں بہت کچھ دیکھنا ہو گا وہ ہمارے مسائل حل کرنے یا کسی سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت پہ فوکس کرنے نہیں آ رہے۔آپ سب حوصلہ رکھیں اور اپنی ناؤ کو خود ڈوبنے سے بچائیں۔ہم ہاتھ ہلائے بغیر ثمرات حاصل کرنے والے لوگ ہیں، ہماری نسلیں مقروض ہیں ہم مہنگائی کے ایک طوفان کا مقابلہ کرتے ہیں تو دوسرا کھڑا ہو جاتاہے، ہم بجلی کے بلوں سے لے کر گیس پانی اور دوسرے کئی بلوں اور ٹیکسوں کی زد میں آئے ہوئے لوگ ہیں۔ہم سے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، ہم گفتار کے غازی ہیں ہم عملی طور پہ کچھ نہیں کر رہے۔
امریکی اور دوسری یورپین قومیں محنتی ہیں، اپنے کام میں ایمانداری سے لگی ہوئی ہیں، بڑے سے بڑا پڑھا لکھا ہاتھ سے کام کرنے کو عار نہیں سمجھتا۔ دھوکا بھی نہیں دیتے، جھوٹ بھی نہیں بولتے، دوسروں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ یہ سب ہماری خوبیاں تھیں۔ ہم نے ان سے منہ موڑ لیا، دولت کی حرص نے ہمیں اچھے برے کی پہچان بھلا دی،ہم اپنی اصل بھول بیٹھے۔
ایمانداری بھول گئے تو برکتیں اٹھ گئیں۔ ہم آج بھی پلٹ سکتے ہیں،ہم فیشن میں اور ماڈرن ہونے میں تو مغرب کی تقلید کرتے ہیں لیکن ان کی ایمانداری میں ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے۔کچھ تو اچھا بھی سیکھنا چاہیئے۔کہیں محنت اور ایمانداری کی عادت بھی اپنانی چاہیئے، کہیں جھوٹ اور چرب زبانی سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے۔ ہمیں خود پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اسوقت دنیا کی منظر نامے پہ جو دکھ اذیت اور تکلیف امت مسلمہ کے بیبس مجبور اور بیگناہ لوگوں کو اٹھانی پڑ رہی ہے اس کی اندوہناک مثال شاید تاریخ میں کہیں نہ ملتی ہو۔
فلسطین کے مظلوم مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں ان کا کوئی مددگار نہیں۔بڑی بڑی طاقتیں اس ظلم کو روکنے میں ناکام ہیں ہم نئے امریکی صدر سے ایک یہ امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اس ظلم کو رکوانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے کسی چارٹر میں مظلوم مسمانوں کی حمائت کی کوئی شق درج نہیں ہے۔ کیا دنیا کا کوئی قانون اس ظلم کو روکنے کی جرآت نہیں رکھتا۔انسان سب ایک جیسا دکھ رکھتے ہیں۔ سب کے خون کا رنگ ایک یے۔سب کوایک جیسی تکلیف محسوس ہوتی یے۔ خدارا مظلوم انسانوں پہ رحم کیجے۔ انسانیت کا احترام کیجئے۔
٭…٭…٭