انقلابی لیڈر معراج محمد خان

Nov 06, 2024

قیوم نظامی

معراج محمد خان بائیں بازو کے نوجوانوں کو متاثر کرنے والے پاکستان کے نامور کرشماتی نظریاتی اور انقلابی لیڈر تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی مزاحمتی اور اصولی سیاست کے لیے وقف کر دی ۔ ان کو مختلف نوعیت کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے اصولوں پر کبھی کمپرومائز نہ کیا ۔ وہ شعلہ بیان مقرر اور منفرد نثر نگار تھے۔ وہ اپنے ایک طویل آرٹیکل ’’تاریخ بولتی ہے‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ان کا خاندان تین صدیاں پہلے ہجرت کر کے ہندوستان آیا ۔ابتدائی تعلیم کے بعد ان کے بڑے بھائی منہاج برنا (ممتاز ترقی پسند صحافی) نے ان کو جامعہ ملیہ دہلی میں داخل کروایا ۔ ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین اس جامعہ کے مہتمم تھے ۔ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو جو اس جامعہ میں آیا کرتے تھے ان کے نظریات سے بہت متاثر رہا ۔ تقسیم ہند کے بعد ان کے والد حکیم مولوی تاج محمد خان اپنے بچوں کے ساتھ ہجرت کر کے کوئٹہ میں مقیم ہو گئے اور حکمت کرنے لگے۔‘‘
معراج محمد خان کو 1962ء اور 1963ء میں جنرل ایوب خان کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے دو بار کراچی بدر کیا گیا۔ معراج محمد خان اس وقت طلباء کی ترقی پسند تنظیم این ایس ایف کے جنرل سیکرٹری تھے۔ 1964ء میں صدارتی انتخابات کے دوران معراج محمد خان نے مادر ملت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں پر جوش حصہ لیا۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جون 1966ء میں جنرل ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب 30 نومبر 1967ء کو ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ لاہور پر پی پی پی کا تاسیسی کنونشن بلایا تو اس میں کئی سوشلسٹ لیڈروں نے شمولیت اختیار کی ۔ جن میں معراج محمد خان، جے اے رحیم، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید، خورشید حسن میر اور مختار رانا شامل تھے ۔ معراج محمد خان کیمطابق روٹی کپڑا اور مکان مزدوروں اور کسانوں کا سلوگن تھا جسے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے منشور کا حصہ بنا لیا ۔ 1970ء کے انتخابات سے پہلے ہالہ سندھ میں پی پی پی کی ایک کانفرنس ہوئی جس میں انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جانا تھا ۔معراج محمد خان نے انتخابات میں شرکت کی سخت مخالفت کی اور’’پرچی نہیں برچھی‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ معراج محمد خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پی پی پی کو انتخاب کی بجائے سوشلسٹ انقلاب کی طرف جانا چاہیے جو عوام کے مسائل کا پائیدار حل پیش کر سکتا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ موت کی کوٹھری میں کتاب لکھ کر ذوالفقار علی بھٹو نے تسلیم کیا کہ ملٹی کلاس پارثی بنانا ان کی غلطی تھی۔ نوجوانوں کو طبقاتی جدوجہد کرکے ریاست پر عوام کی بالادستی قائم کرنی چاہیے ۔ معراج محمد خان نے 1970ء کے انتخابات میں حصہ نہ لیا البتہ پی پی پی کی کامیابی کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت قائم کی تو معراج محمد خان کو پبلک افیئرز کے لیے وزیر مملکت نامزد کر دیا۔
انتخابی مہم کے دوران ذوالفقار علی بھٹو پر 8 قاتلانہ حملے ہوئے۔ انہوں نے غلام مصطفی کھر اور معراج محمد خان کو اپنا جانشین ڈیکلیئر کر دیا ۔ معراج محمد خان نے 1972ء میں اصولی اختلافات کی بنا پر وزارت سے استعفی دے دیا ۔ وہ 1973ء میں پی پی پی کی بنیادی رکنیت سے بھی مستعفی ہو گئے ۔ انکے خیال میں ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی منشور سے انحراف شروع کر دیا تھا ۔ 1974ء میں معراج محمد خان کو حیدراباد ٹربیونل کیس میں چار سال قید کی سزا سنائی گئی جب ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس نے حیدراباد ٹربیونل کے تمام اسیروں کو رہا کر دیا۔ معراج محمد خان نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف چلائی جانے والی پاکستان کی مقبول تحریک ایم ار ڈی میں بھی سرگرم کردار ادا کیا ۔
معراج محمد خان نے قومی محاز ازادی کے نام سے ایک سیاسی نظریاتی اور انقلابی جماعت تشکیل دی جس نے پاکستان بھر کے نظریاتی کارکنوں کی سیاسی تربیت کی مگر عوامی پزیرائی حاصل نہ کر سکی۔ معراج محمد خان نے 1997ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی اور اسکے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ معراج محمد خان سے پی پی پی کی وجہ سے راقم کا باہمی احترام کا تعلق تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں بھی تحریک انصاف میں شامل ہو جاؤں مگر میں نے ان سے بوجوہ معذرت کر لی۔ 2002ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست جیت سکی جس پر عمران خان کامیاب ہوئے۔ معراج محمد خان نے عمران خان کو کہا کہ ان میں تنظیمی صلاحیتوں کا فقدان ہے اور تحریک انصاف ان کی ایک’’ فین کلب ‘‘بن چکی ہے ۔ کرکٹ بائی چانس ہو سکتی ہے لیکن سیاست بائی چانس نہیں ہوتی ہے۔ وکلا کے نامور لیڈر بیرسٹر حامد خان نے راقم کو بتایا کہ جب معراج محمد خان عمران خان سے نظریاتی گفتگو کرتے تھے تو عمران خان کو ان کی باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ عمران خان حامد خان سے پوچھتے کہ معراج محمد خان نے کیا کہا ہے ۔ عمران خان کا چونکہ سیاسی پس منظر نہیں ہے لہذا پارٹی کے تنظیمی معاملات کے سلسلے میں آج بھی وہ مشکلات کا شکار ہیں معراج محمد خان نے 2003ء میں تحریک انصاف سے استعفی دے دیا ۔ معراج محمد خان کی سیاست شخصیت اور جدوجہد کے بارے میں کئی کتب قلم بند کی گئی ہیں ? 2016ء میں رشید جمال نے ایک کتاب مرتب کی جس میں تحریر کیا کہ بائیں بازوں کا اخری چراغ بجھ گیا۔ 2017ء میں ارشد بٹ نے کتاب’’معراج محمد خان‘‘ تحریر کی جس میں ان کو مزاحمتی سیاست کا عظیم لیڈر قرار دیا۔ پاکستان کے ترقی پسند نامور مورخ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ایک کتاب مرتب کی ہے جس کا نام ’’ نگار سحر کی حسرت میں‘‘ ہے۔ یہ مطبوعہ فکشن ہاؤس لاہور ہے۔ یہ کتاب معراج محمد خان کی 60 سالہ سیاسی جدوجہد کا احاطہ کرتی ہے۔ پاکستان کے نوجوان معراج محمد خان کی سیاسی زندگی سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ بر صغیر کے مسلمانوں نے کبھی کسی متوسط طبقے کے شخص کو اپنا لیڈر تسلیم نہیں کیا۔ قائد اعظم کا تعلق خوشحال طبقے سے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جاگیردار تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی جاگیردار تھیں۔ میاں نواز شریف کروڑ پتی تھے اب ارب پتی ہیں۔ عمران خان کرکٹ کے ہیرو ہیں ان کے پاس بھی سرمائے کی کمی نہیں۔ پاکستان کے جو سیاسی لیڈر دائیں یا بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے ان کو عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا ۔ قائد اعظم نے سردار شوکت حیات سے کہا کہ بزنس کر کے سرمایہ اکٹھا کر لو مسلمان قوم کسی غریب کو لیڈر نہیں مانتی ۔ مولانا فضل الرحمن نے قاضی حسین احمد سے کہا کہ جب تک لیڈر بڑی گاڑی پر شان و شوکت کے ساتھ عوام کے پاس نہ جائے عوام اسے لیڈر نہیں مانتے۔آج جو نوجوان بائیں بازو کی سیاست کر رہے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے بیداری اور شعور کی تحریک کا آغاز کریں تاکہ پاکستان سے سرمایہ دارانہ جاگیر درانہ اور کلونیل کلچر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے ۔ سیاسی جماعتیں بنانے کی بجائے متحدہ محاذ بنا کر ایک انقلابی تحریک کا اغاز کیا جانا چاہیے۔ جس کا ایجنڈا قومی اور عوامی ہو اور ہر محروم و مظلوم شہری کے دل کی آواز ہو۔ انتخابی سیاست سے نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد سے ہی ملکی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور عوام کا مقدر تبدیل کیا جا سکتا ہے اور سٹیٹس کو توڑا جا سکتا ہے۔ نوجوانو طلبہ مزدور کسانو ایک انقلابی پلیٹ فارم پر متحد ہو جاؤ۔ تمہارے پاس کھونے کو کچھ نہیں جب کہ پانے کو سب کچھ ہے۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں