پنجاب اور خیبر پی کے میں پی آئی اے کی خریداری کی ریس لگ گئی۔
پی آئی اے کی خریداری کے حوالے سے لگتا ہے اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کے درمیان زبانی کلامی بیان بازی کی ریس چل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی صوبے کے پاس اتنی مالی طاقت نہیں کہ وہ قومی ایئرلائن کو خرید سکے۔ بس نمبر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کراچی کے تاجر اور صنعت کار بھی مل جل کر اسے خریدنے کی بات کر رہے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ 85 ارب روپے کم از کم بولی طے ہونے کے بعد کون یہ بھاری پتھر اٹھاتا ہے۔ یا چوم کر رکھ دیتا ہے۔ کہتے ہیں ناں‘ پی آئی اے جیسی نامور ایئرلائن کو خریدنا یا فروخت کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ پوری ایئرلائن کو تو چھوڑیں‘ اس کا نیویارک والا روزویلٹ ہوٹل ہی دیکھ لیں‘ اربوں روپے کی لیز پر دیا گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پی آئی اے کی ازسرنو بحالی کیلئے سنجیدگی سے سوچے‘ اسیکام چور، فالتو‘ اضافی ملازمین اور غیر ضروری اخراجات سے نجات دلائے‘ بیمار کو بیماری میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑا جاتا۔ اس کا علاج کیا جاتا ہے تاکہ جلد از جلد صحت یاب ہو۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ ورنہ اس طرح تو ریلوے اور واپڈا کت محکمے بھی مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔ واپڈا کی نجکاری سے اچھے پیسوں کے علاوہ 5 لاکھ واپڈا کے ملازمین جو مفت بجلی لیتے ہیں‘ وہ فارغ ہونے سے ادارے کو اربوں روپے کی بچت ہوگی اور وہ خسارے سے نکل آئیگا۔ اسی طرح ریلوے ملازمین کی فوج ظفر موج کی ڈائون سائزنگ سے بھی بچت کی بدولت یہ محکمہ بھی خسارے سے نکل سکتا ہے۔ یہی فارمولا پی آئی اے میں اپنا کر اسے بچایا جا سکتا ہے۔ اور سچ کہیں تو سٹیل مل پربھی۔ قابل فخر ماضی رکھنے والا یہ پرچم بردار ادارہ دنیا بھر میں ہماری پہچان ہے۔ اسے برقرار رہنا چاہیے۔ علی امین گنڈاپور تو کہتے ہیں ہم چندہ لے کر رقم جمع کریں گے‘ یعنی ہر کام چندہ مانگ کر کرنے کی پالیسی یہاں بھی رہے گی۔ اب ہسپتال کے بعد پی آئی اے کے نام سے چندہ شروع ہو جائیگا۔ وزیراعلی پنجاب نے بھی نہیں بتایا کہ وہ رقم کہاں سے لائیں گی۔ پنجاب میں بھی کرنے والے بہت سے کام ابھی باقی ہیں۔
٭…٭…٭
یہاں انصاف نہیں ملے گا‘ بشریٰ بی بی عدالت میں رو پڑیں‘۔ وکلاء بھی ناقابل اعتماد ہیں۔
اب یہ عدلیہ پر ان کا عدم اعتماد ہے یا اپنے وکلاء کی نااہلی کی شکایت‘ بشریٰ بی بی ایک طرف ججوں پر ناانصافی کا الزام لگا رہی ہیں‘ اور کہہ رہی ہیں ان پر ظلم ہو رہا ہے، اب وہ عدالت میں پیش نہیں ہونگی۔ اس طرح کیا وہ خود اپنا کیس خراب نہیں کر رہیں۔ دوسری طرف عدالت میں رو کر 9 ماہ سے انصاف نہیں ملا کا شکوہ بھی ہے۔تو پھر کہاں سے انصاف ملے گا۔ اس سے پہلے نصرت بھٹو‘ بے نظیر بھٹو‘ کلثوم نواز‘ مریم نواز‘ فریال تالپور‘ یاسمین راشد‘ صنم جاوید اور خدیجہ شاہ بھی جیل جانے کے باوجود مضبوط اعصاب کے ساتھ سختیاں برداشت کرتی نظر آتی رہیں۔ سابق خاتون اول کو بھی لوگ ایک مضبوط پختہ عزم خاتون کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بس قدرت کی ستم ظریفی کہیں یا قسمت کا چکر‘ جسے وقت کا الٹ پھیر بھی کہتے ہیں‘ سابق وزیراعظم کہا کرتے تھے‘ میں ان سب کو (مخالفین کو) رلا دوں گا‘ آج اسکے الٹ ہوتا نظر آرہا ہے۔ وہ کہتے تھے‘ انکی چیخیں نکلوائوں گا‘ آج کون چیخ رہا ہے‘ سب کو معلوم ہے۔ اس لئے کہتے ہیں انسان جو بھی بولے سوچ سمجھ کر بولے۔ بہتر ہے پہلے تولے پھر بولے۔ بڑوں نے کہا ’’زیر بن زبر نہ بن آگے پیش بھی آنی ہے۔ شاید اس وقت وہی ہو رہا ہے۔ کپتان خود بھی شاید تنہائی میں سوچتے ہونگے۔ وہ بولتے ہوئے بہت بڑے بڑے بول بول دیتے تھے۔ کہیں اس کے بداثرات بشریٰ بی بی پر تو نہیں پڑ رہے ہیں۔ جو بقول مرشد نیک اور گھریلو خاتون ہیں۔ خدا ان سمیت سب کو برے وقت اور اسکی سختیوں سے بچائے۔ معزز جج صاحبان بھی بشریٰ بی بی کی جذباتی باتوں کا برا نہ منائیں‘ جس میں انہوں نے ناانصافی کا الزام لگایا اور اپنے وکلاء کو بھی کوسا کہ وہ بھی کیس لڑنے کے بجائے وقت ضائع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اب کہیں انکے وکیل ناراض نہ ہوجائیں۔
٭…٭…٭
نئی دہلی میں ایک پائو آلو چوری ہونے پر شہری نے پولیس بلالی۔
اس قسم کی حرکت اگر پاکستان میں ہوتی تو عجیب نہ لگتا۔ یہاں ایسا ہونا غلط نہیں اور اسکے لئے شکایت کرنے والے کا نشے میں دھت ہونا بھی ضروری نہیں جیسے دہلی والا مدعی تھا۔ کیونکہ یہاں حقیقت میں آلو کی قیمت اتنی ہے کہ اگر ایک پائوبھی کوئی چوری کرلے یا چھین لے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ ایک عام سبزی ہے‘ جو غریبوں کیلئے نعمت غیرمرقبہ کہلاتی ہے۔ مگر اب یہ بھی سونے کے بھائو بکتی ہے۔ سارا سال خواہ اس کا سیزن ہو یا نہ ہو‘ اس کا ریٹ 150 سے کم نہیں ہوتا۔ یہ واحد سبزی ہے جو ہر ایک سبزی کے ساتھ‘ گوشت کے ساتھ‘ مرغی کے ساتھ‘ قیمے کے ساتھ یا خالی‘پکا کر کھائی جاتی ہے۔ لوگ پسند بھی کرتے ہیں۔ اس لئے چپس ہو یا پکوڑے‘ سب میں آلو ہی من بھاتا کھاجا ہے۔ بھارت میں اسکی قیمت اتنی نہیں کہ واویلا مچایا جائے‘ ہمارے ہاں البتہ بات اور ہے۔ بھارتی کسان عقل مند ہیں‘ انہوں نے کوڑیوں کے بھائو آلو فروخت کرنے سے انکار کیا‘ فصل ضائع کی‘ سڑکوں پر پھینکی تو حکومت نے قیمت خرید بڑھادی۔ یہی حال ٹماٹر کا بھی ہوا۔ وہاں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں سستے داموں یہ دونوں سبزیاں خرید کر چپس اور کیچپ بنا کر مہنگے داموں فروخت کرکے بھاری منافع کماتی تھیں اور کسان بے چارے بمشکل اخراجات پورے کر تے تھے۔ اب قیمت اچھی ہونے کے باوجود وہ ہمارے ہاں کی قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کہاں 5 یا 10 روپے اور کہاں 150 روپے یا 200 روپے۔ اس لئے اگر ہماری سبزی گم ہو جائے یا چوری ہو جائے تو واقعی کہرام مچ سکتا ہے۔ کچن خالی ہو سکتا ہے یعنی کھانا نہیں پکتا۔ کیونکہ جیب اجازت نہیں دیتی کہ اور لائیں۔ بھارت میں اب پولیس کے ہتھے چڑھنے کے بعد اس نشے میں دھت مدعی کے مزاج بھی ٹھکانے پر آچکے ہونگے۔ اتنے آلو نہ ہوں گے جتنا اسے ڈنڈے مکے اور ٹھڈے اور تھپڑ پڑ چکے ہونگے۔
٭…٭…٭
خیبر پی کے میں وزیروں کی مراعات میں اضافہ‘ گھر کا ماہانہ کرایہ 2 لاکھ اور آرائش کیلئے 10 لاکھ ملیں گے۔
یہ ہوتی ہے عوام کی خدمت۔ جن کے ٹیکسوں سے یہ حکومت ‘ اسکے وزیر‘ ایم پی ایز عیاشیاں کرتے ہیں۔عوام کو لمقہ تر تو دور کی بات‘ خشک نان بھی میسر نہیں اور وزیروں‘ مشیروں کی مراعاتوں میں خوب دل کھول کر اضافہ کیا جارہا ہے۔ وہ بھی اس صوبے میں جہاں اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔ خزانے کو اربوں روپے روپے کاخسارے کا ناگ چاٹ رہا ہے‘ مگر وہی ’’نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز‘‘ والی بات ہے کہ مراعات یافتہ لوگوں کو نوازا جا رہا ہے۔ ہر وزیر کو دو لاکھ گھر کا کرایہ ملے گا اور دس لاکھ گھر کی تزئیں و آرائش کیلئے ملیں گے۔ کیا ہمارے وزیر اتنے غریب ہوتے ہیں کہ اپنے گھر کا کرایہ بھی نہیں دے سکتے۔ گھر کو بنا سنوار بھی نہیں سکتے۔ انہیں عوام نے اپنے مسائل حل کرنے کیلئے چنا ہوتا ہے‘ یہ اسمبلیوں میں جا کر اپنی قسمت سنوارتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انتخابی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ ٹیکس ایک دمڑی نہیں دیتے۔ الٹا انہی کو سرکاری خزانے سے بھی خوب نوازا جا رہا ہے۔ کیا حکومت اپنے وزیروں کو قابو میں رکھنے کیلئے یہ دائو چل رہی ہے کیونکہ مراعات مال مفادات بڑے بڑوں کا منہ بند کر دیتے ہیں۔ شاید تبدیلی کا نعرہ بھی کسی ان دیکھے راستے میں کھوگیا ہے۔ ایسا تو باقی سب بھی کر رہے ہیں تو آپ اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔