ججوں کی تعداد اورسروسز چیفس کی مدت بڑھانے کے بلوں کی منظوری

Nov 06, 2024

حکومت نے حزب اختلاف کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران قومی اسمبلی سے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت3 سال سے بڑھا کر 5 سال، سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی تعداد9 سے بڑھا کر 12 کرنے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی قانون 2024 ء کے بل کثرت رائے سے منظور کرا لیے۔ مذکورہ بل سینٹ سے بھی منظور کرا لیے گئے۔ ان بلوں پر قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی نے دستخط کر دیئے جس کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ججز کی تعداد بڑھانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجرترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیے جبکہ مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت5 سال کرنے کے ترمیمی بلز وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیش کیے۔اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 34 کی جا رہی ہے۔ جوڈیشل کمشن آف پاکستان ضرورت کے مطابق ججز کی تعداد میں اضافہ یا کمی کر سکے گا۔ ہوسکتا ہے پہلے مرحلے میں ہمیں 6 یا 8 ججز کی ضرورت پڑے، وقت کے ساتھ یہ نمبر بڑھتا گھٹتا رہے گا، ہم نے اس فیصلے کا اختیار جوڈیشل کمشن آف پاکستان پر چھوڑ دیا ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج میں کسی جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا۔ دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔
قانون ساز ی پارلیمنٹ کا مسلمہ اختیار ہے۔یہی اختیار استعمال کرتے ہوئے اب قانون سازی کی گئی ہے۔بہتر ہوتا حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتی۔ان بلوں پر سیر حاصل بحث ہوتی۔ حکومت نے ایک مرتبہ پھر 26ویں آئینی ترمیم کی طرح یہ بل بھی عجلت میں منظور کروا لیے لیکن اس سے ان بلوں کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق اور اثر نہیں پڑتا۔تحریک انصاف جو پارلیمنٹ میں بڑی اپوزیشن پارٹی ہے اس کی طرف سے نہ صرف ان بلوں کی مخالفت کی گئی بلکہ شور شرابہ بھی کیا گیا۔نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچ گئی۔قوم ہمارے فاضل ارکان کے کردار اور کارکردگی پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں فالوبھی کرتی ہے۔ پارلیمان میں دھینگا مشتی سے ارکان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں جاتا۔بہر حال اسے بھی جمہوریت کا حصہ ہی مانا جاتا ہے۔مگر حدود و قیود ضرور ہونی چاہئیں۔ مشرقی پاکستان اسمبلی میں 1958ء میں ہلا گلا مار کٹائی کے دوران ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو مار ہی ڈالا گیا تھا۔ ہمارے ہاں بہر صورت حالات اس نہج تک نہیں پہنچے۔
اس قانون سازی پر ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی طاقت کے بغیر جو بھی قانون پاس ہوا غلط ہوا۔ یہ لوگ ججز نہیں بڑھانا چاہ رہے بلکہ اپنی مرضی کے ججز لانا چاہ رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے بعد پارٹی پالیسی بیان جاری کریں گے۔ آئین کو بے معنی کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کو بادشاہت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
اس اجلاس کے دوران بھی تحریک انصاف کوئی واضح لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے نظر نہیں آئی۔ایک مرتبہ پھر اس کے بارے میں فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر مزید تقویت پکڑ گیا جب سروسز چیفس کی مدت پانچ سال کرنے کی شق پیش ہوئی تو اس پر اپوزیشن بینچ خاموش ہو گئے۔ویسے بھی ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو سروسز چیفس کی مدت پانچ سال کرنے پر اعتراض نہ ہو کیونکہ خود پی ٹی آئی نے جنرل قمر جاوید باجوا کو تین سال کی توسیع دینے کے لئے آئین میں ترمیم کی تھی اور اس وقت کی ساری اپوزیشن جماعتوں کو بھی آن بورڈ کیا تھا۔
مذکورہ قانون سازی پر جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے کہا گیا کہ نئی قانون سازی 26 ویں ترمیم کی توہین ہے کسی کو بھی شک کی بنیاد پر 90 روز اپنی تحویل میں رکھنا سول مارشل لاء کے مترادف ہے ۔یہ جمہوریت کے چہرے پر ایک دھبہ ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد کی حدود تک پاس کیے گئے وقف املاک ایکٹ کو جے یوآئی غیر شرعی قرار دے چکی ہے۔مولانا فضل الرحمن کو عموماً پاکستان کی ’’سیاست میں‘‘ مذہب پر اتھارٹی مانا جاتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ان کو اتھارٹی ماننے والے کبھی اس طرف ہوتے ہیں کبھی اس طرف ہوتے ہیں۔وقف املاک کے حوالے سے مولانا کی پارٹی کے اگر تحفظات ہیں تو وہ بہر صورت حکومت دور کرے۔
نئے قانون کے مطابق سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کی گئی ہے۔اسلام آباد کے جج نو ہیں اس قانون کے تحت ان کی تعداد 12 ہو جائے گی۔جب کہ دیگر ہائی کورٹس میں کئی آسامیاں خالی ہیں۔ وہ آسامیاں بھی پر ہو جاتی ہیں تو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں 60 کا اضافہ ہو جائے گا۔سپریم کورٹ میں 60 ہزار کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ لوئرکورٹس اور ہائی کورٹس میں یہ تعداد لاکھوں تک ہے۔
۔ہر نئے آنے والے چیف جسٹس کی طرف سے بیک لاگ کو ختم کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہی رہے ہیں۔اب کے ججوں کی تعداد اتنی ہونے کے بعد عدلیہ کے پاس ججوں کے بیک لاگ کے برقرار رہنیکا کوئی جواز نہیں رہے گا۔کراچی لاہور اور کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹریاں موجود ہیں مگر وہ ججوں کی کمی کے باعث عموماً خالی رہتی ہیں۔اب جب کہ ججوں کی تعداد 17 سے 34 ہو جائے گی تو ان رجسٹریوں میں مستقل بنیادوں پر ججز حضرات موجود ہوا کریں گے۔جس سے علاقے کے سائلین کو بروقت اور سستا انصاف بھی مل سکے گا۔

مزیدخبریں