ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ عدلیہ سے کوئی فیصلہ آتا ہے تو ایک مخصوص حلقہ اس کی تعریف کرتا ہے تو ایک حلقہ اس کی مخالفت کرتا ہے ہمیں اس روئیے اور سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ کیونکہ اگر ہر وقت آپ ایسے ہی تنازعات میں الجھے رہیں گے تو یقینی طور پر عدم استحکام کا شکار رہیں گے۔ آپ کسی بھی عدالتی فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے میرٹ پر آئین و قانون کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کریں لیکن اسے اپنے سیاسی فائدے یا نقصان کو سامنے نہ رکھیں۔ دیکھیں ہم نے اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے جو زندگی ہم نے گذاری ہے کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ان حالات کا سامنا کریں، ایسے ہی مشکل حالات سے گذرتے رہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے، ہمیں ان حالات کو بدلنا ہے ۔ ان دنوں آئینی ترامیم کا زمانہ ہے، پارلیمنٹ میں مسلسل اس حوالے سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، گذشتہ دنوں چھبیسویں ترمیم منظور ہوئی ہے۔ اب پارلیمنٹ میں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کے بل متفقہ طور پر منظور ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد چونتیس اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں بارہ ہو گی، آرمی، فضائیہ اور نیوی ترمیمی ایکٹ کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔
جہاں تک تعلق اعلی عدلیہ میں معزز جج صاحبان کی تعداد بڑھانے کا ہے۔ اس معاملے میں تو کسی کو یہ شور نہیں مچانا چاہیے نہ اسے متنازع بنانا چاہیے کیونکہ میرا تو خیال ہے کہ آپ سپریم کورٹ میں معزز ججز کی تعداد چونتیس کر رہے ہیں جو حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئے تو یہ تعداد اڑسٹھ بھی ہو جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صرف سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ ہمیں اپنے نظام انصاف کو بہتر بنانے کے لیے ہائیکورٹس، لوئر کورٹس ہر سطح پر ججوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے، اچھے، قابل اور ایماندار ججز کی تعیناتی ہونی چاہیے، ججز پر مقدمات کا بوجھ کم ہونا چاہیے تاکہ وہ بہتر اور تیز رفتار انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ انصاف عام ہو، سستا ہو، لوگوں کی دہلیز پر ہو، لوگوں کو نظام انصاف پر یقین ہو، جج صاحبان کو بھی کسی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے ۔ پارلیمنٹ ججز کی تعداد بڑھانے پر قانون سازی تو کر رہی ہے، ہمیں اپنے تفتیشی نظام کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ججز کی تعیناتی سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ سارا کام خالصتا میرٹ پر ہونا چاہیے ۔ ہم دنیا میں نظام انصاف کے معاملے میں نچلے نمبروں پر ہیں۔ ہر وقت فیصلوں کو مخصوص نگاہ سے دیکھنے کے بجائے قانون کی تشریح اس کی اصل روح کے مطابق کریں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کا تعین جوڈیشل کمیشن ضرورت کے مطابق کرے گا ۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ججز کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا تھا ۔ سپریم کورٹ کی چاروں رجسٹریز سالہا سال خالی رہتی ہیں، لوگ پنجگور ، خضدار ، جنوبی پنجاب ، ڈی جی خان یا اپر کوہستان سے اسلام آباد آتے ہیں۔ ججز کی تعداد سوچ بچار کے بعد بڑھا کر چونتیس کی گئی ہے لیکن ججز سولہ ہوں ، بیس یا اٹھائیس اس حوالے سے تعداد کا تعین جوڈیشل کمیشن ضرورت کے مطابق کرے گا۔ ہیں۔ چھبیسویں ترمیم کے بعد ضروری تھا آئینی بینچز کیلئے سینئر ترین جج کمیٹی میں ہو، جو ججز آئینی بینچ میں جائیں گے وہ اپنے کام کے ساتھ دوسرا کام بھی کر سکتے ہیں، کمیٹی میں چیف جسٹس ، سینئر ترین جج اور آئینی بینچز میں سینیئر ترین جج بھی آئیں گے۔
بہرحال سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان آئینی ترامیم کو سیاسی نگاہ کے بجائے نظام میں اصلاحات کے پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے نقطہ نظر بیان کرے ۔ کسی کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ کسی شخصیت کے آنے سے اسے رعایت مل سکتی ہے یا اس کے گرد گھیرا تنگ ہو جائے گا۔ یہ اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیر جانبداری اور شفافیت کو برقرار رکھیں۔ ان آئینی ترامیم میں ایک ترمیم دفاعی اداروں کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے۔
قومی اسمبلی نے سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کا ترمیمی بل 2024 منظور کر لیا، ایوان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی ترمیم کا بل بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ سروسز چیفس کو توسیع کی مدت بھی 3 سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی، سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کیلئے 64 سال عمر کی حد بھی ختم کر دی گئی، سروسز چیفس کی توسیع کے دوران رینک کی مدت یا عمر کی پابندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔ سیاسی قیادت اس مسئلے پر بھی تقسیم رہے گی جو اپوزیشن میں ہیں وہ یہ کہیں گے کہ یہ ترامیم کسی خاص مقصد کے تحت ہیں اور اس کا انہیں نقصان اور کسی کو فائدہ ہو گا لیکن اگر سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں اضافے کو دیکھا جائے تو یہ ضروری تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی نیا سربراہ آتا ہے کچھ اور نہیں تو کم از کم ڈیڑھ سال تک وہ جانے والے آرمی چیف کی پالیسیوں پر عملدرآمد کر رہا ہوتا ہے یوں اس کے پاس اپنے تجربے، سوچ اور قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کا وہ موقع نہیں ملتا جس کے لیے وہ برسوں انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اب اس ترمیم کے بعد کم از کم افواج پاکستان کے سربراہ کے پاس اتنا وقت ضرور ہو گا کہ وہ نئی حکمت عملی تیار کرے، منصوبہ بندی بنائے، کوئی نیا کام شروع کرے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ ویسے بھی تو ہر تین سال کے بعد "ایکسٹینشن " کا شور بلند ہوتا ہے اور جو حکومت میں ہوتا ہے وہ مدت ملازمت میں توسیع کے مرحلے والے معاملے سے گذرتا ہے۔ یوں اس ترمیم کے بعد اب کم از کم کسی کو تین سال بعد " ایکسٹینشن " والے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لیے سیاسی قیادت کو چاہیے کہ اس تبدیلی کو آپریشنل ضرورت کے طور پر دیکھے اور بیان کرے، اسے تیرا بندہ میرا بندہ کہہ کر متنازع بنانے کے بجائے اس کے مثبت پہلوؤں پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
آخر میں مرزا غالب کا کلام
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا