فضائ پر راج کرتا زہریلادھواں اعر ہمارے بچے

یہ کہنا بجا ہوگا کہ اب پاکستان کے چار نہیں پانچ موسم ہیں۔ میرا اشارہ سموگ کی جانب ہے جو جان سے ایسی چمٹی ہے کہ ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔بات اگر لاہور کی کی جائے توفضائی آلودگی کے اعتبار سے شہر لاہور پہلے نمبر پر آچکا ہے جبکہ کراچی بھی پیچھے نہیں ہے۔ایک تحقیق کے مطابق سموگ کے باعث لاہور کے باسیوں کی عمروں میں نو ماہ کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ زہریلی ہوا میں نہ چاہتے ہوئے سانس لینا بھی لازمی ہے۔ یہ زہریلی ہوا پھیپھڑوں تک جا کر ہمارے نظام تنفس کو غیر معمولی نقصان پہنچاتی ہے۔
بچے چونکہ نازک واقع ہوئے ہیں اور کھلی فضا میں نکلنا ،کھیلنا کودنا ان کی عادات میں شامل ہے لہذا والدین کے لیے بچوں کو سموگ سے بچانا اہم مسئلہ ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیئے۔ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔
محققین کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان بچوں میں 48 فیصد بچوں کے پھیپڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔
یہ عام بات ہے کہ صبح سویرے بیشتر بچے موٹر سائیکل پر سکول جاتے ہیں۔ اس دوران زہریلی ہوا تیزی سے بچوں کے اندر داخل ہوتی ہے۔ نتیجتاًً بچوں میں گلہ خراب، کھانسی، نزلہ، بخار، آنکھوں میں جلن اور منہ میں چھالوں کی شکایت بڑھ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ سکول میں بریک کے اوقات میں کھلی فضا میں کھیلنے والے بچے اور شام میں کھلے میدانوں میں کرکٹ کے شوقین بچے بھی سموگ سے متاثر ہوتے ہیں۔ 
ان خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے پہلی سے پانچویں جماعت تک کے بچوں کو ایک ہفتے کی چھٹیاں دے دی ہیں۔ لیکن کیا اس ایک ہفتے میں سموگ کم ہو جائے گی؟ سموگ کی کمی کا انحصار بارش پر ہے، اگر بارش نہ ہوئی تو یقینا سموگ ہمارے ساتھ رہے گی۔سموگ سے بچنے کے لیے یہ سمجھنا کہ گھر سے باہر نہ نکلا جائے کسی حد تک درست ہے لیکن اگر گھر کی کھڑکیاں اور دروازے کھلے ہیں تو یہ ہمیں گھر کے اندر بھی متاثر کر سکتی ہے۔
 ہوا دار گھر میں سموگ داخل ہو کر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ لہذا گھر کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھیں۔
بچوں کو سموگ کے اثرات سے بچانے کے لیے چند ضروری اقدامات لازمی اختیار کریں۔
اوّل یہ کہ بچہ گھر سے ماسک پہن کر نکلے۔ اس کے علاوہ آنکھوں پر کالا چشمہ ضرور پہنے تاکہ آنکھوں کو جلن سے بچایا جا سکے۔ 
اس کے علاوہ سکول انتظامیہ بریک کے اوقات میں کوشش کرے کہ بچوں کو کلاس رومز سے باہر نہ جانے دیں۔
گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔جبکہ گیلا کپڑا گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں پر لٹکائیں۔
 بائیک پر بچوں کو سفر نہ کرنے دیں۔ پارک، میلوں، بازاروں اور کھلی فضا میں بچے لے جانے سے گریز کریں۔
بچے باہر سے جب واپس آئیں تو انھیں آنکھوں میں پانی کے چھینٹے مارنے اور چہرہ اور ناک صاف کرنے کی ہدایت دیں۔
گھر کی صفائی جھاڑو سے نہ کریں ، جھاڑو دینے سے قبل پانی کا چھڑکاؤ کر لیں۔ 
گھروں کے باہر پانی کا چھڑکاؤ کرتے رہیں۔بچوں کو زیادہ سے زیادہ پانی پلائیں اور کوشش کریں کہ سوپ ، قہوہ اور چائے بچوں کی خوراک کا حصہ ہوں۔
 یہ چند ہدایات ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو بچوں کو سموگ کے اثرات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن