تعلیمی ادارے اعر جدید معاشرتی تقاضے

 پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں لاتعداد تعلیمی اداروں کا مضبوط نیٹ ورک موجو د ہے۔ روز مرہ تعلیم، ویک اینڈ کلاسز، نائٹ کلاسز اور ورچوئیل کلاسز، سمسٹر سسٹم نے طلبہ وطالبات کو حصول تعلیم کے وسیع مواقع فراہم کیے ہیں۔ تاہم انٹر کی تعلیم غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ آئندہ زندگی میں جو بھی میدان اختیار کرنا ہے اس کا سارا انحصار انٹر میڈیٹ کے ان دو سالوں کی تیاری کو اور پھر ملنے والے گریڈ زپر ہے۔ گریڈز کی ایسی دوڑ لگی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ ہر طرف ایک طوفان ہے جو برپا ہے۔تعلیمی اداروں کے ذریعے انٹر میں نمبروں کی دوڑ کو والدین اور طلبہ ذہنی طور پر اور عملاً بھی قبول کر چکے ہیں۔ سکول اور کالج اوقات کے بعد شام کے تعلیمی اداروں اور اکیڈمیوں نے گویا  نمبروں کی اس دوڑ کو دگنا کر دیا ہے۔ اخلاقی عادات، رویے اور عادات سکھانے کی بات قصہ پارینہ جانئے۔ گریڈ سے بات شروع ہوئی، گریڈ پر ختم ہوئی۔ تعلیمی اداروں نے 1980 کے بعد عموما اعلیٰ نمبروں کے حصول کو نا صرف ترجیح اول بنادیا ہے بلکہ اسے اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے حصول کی ضمانت بھی بنا دیا ہے۔

 آج  تعلیمی اداروں کو اپنے تعلیمی ماحول کے ضابطے طے کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان کے نفاذ کے لئے حکومت، والدین، اداروں، طلبہ اور طالبات کو مل جل کر کاوش کرنا ہو گی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم کا بڑا مقصد نفسی اور مزاجی رجحانات کی ترتیب و تہذیب ہے۔ 
حالات کا تقاضا ہے کہ اس نصب العین کو مقاصد تعلیم میں اولیت دی جائے۔ اور طے کیا جائے کہ آج نو جو ان نسل کی ضرورت کیا ہے؟ اور ریاست کو کس طرح کے، کس فیلڈ  میں  اخلاق اور تہذیب یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے۔نوجوان طالب علم اور طالبہ کو باشعور مگر ٹھنڈے  دماغ میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے لائحہ عمل  اپنانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ان نوجوان طلبہ و طالبات میں احساس ذمہ داری کا رویہ پیدا کیا جائے۔؟ کھو کھلی جذباتیت، فوری رد عمل اور شور شرابے کی بجائے سوچنے، سمجھنے اور سننے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔  ہماری نوجوان نسل چار گھنٹے کالج اور چار گھنٹے اکیڈمی میں گزار رہی ہے۔ باقی وقت ٹک ٹاک، موبائل فون اور ٹی وی کے لئے مختص ہے۔ اب اس کے پاس اپنے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ہے۔ تعلیم تو مل رہی ہے، مگر تربیت کا وقت ڈبل شفٹ کے اداروں نے لے لیا ہے۔ تعلیم کی بجائے اعلیٰ نمبروں کی ضرورت کیلئے جو ادارے برانڈز بن چکے ہیں یہ سرکار کے لئے ایک چیلنج ہیں۔ حکومت تعلیم اور یکساں تعلیم کے خوابوں کو نہ جانے کب پورا کرے گی؟برینڈ ادارے جو دوائے دل بیچ رہے ہیں، اس کے مثبت اور قابل توجہ پہلوؤں پر مکالمہ کی ضرورت ہے۔ امومیت یعنی hood Mother  کی ہدف کو سامنے رکھ کر بہترین نصاب تشکیل دیا جائے، ورنہ ہم قومی، معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے بانجھ ہو جائیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے۔ اپنی تہذیب اور نظام کے تحت ہم اپنا تصور نسائیت اور تصور تعلیم واضح کریں۔ بصورت دیگر مرکب اخلاق، مرکب اسلام اور مرکب تعلیم سے بد ذائقہ، بد شکل اوربد اطوار واقعات ہی جنم لیں گے۔مغرب نوردی '' کرنے کا جو سفر ہم نے سالہا سال سے اختیار کر رکھا ہے اس نے نا صرف ہمیں  اپنی شاندار روایات سے بہت دور کر دیا ہے بلکہ احساس کمتری کی بیماری بھی عمومی طور پر اختیار کر لی گئی ہے۔ اس کے برعکس اپنی تہذیب اپنانے کی شعوری کوشش قومی سطح پر کی جائے، تو بہت سے ایسے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اور جدید دنیا میں سر اٹھا کر جینے کی تمنا بھی پوری ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن