بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رہنما¶ں کا یہ مطالبہ جائز اور قابل توجہ ہے کہ ”پنجاب بڑے بھائی کا کردار ادا کرے“ بے شک ملک میں جب بھی کسی صوبے کے لوگوں کے خلاف داخلی یا خارجی طور پر خراب حالات پیدا ہوئے پنجابیوں کی جانب سے م¶ثر ردِعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان ہو، بلوچستان میں مینگل حکومت کی غیر قانونی برطرفی، فوجی طالع آزما¶ں کے جمہوری نظام پر حملے، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے چند اہم مثالیں ہیں ان کے حوالے سے پنجابیوں کا طرزِعمل لاغرضی والا رہا ہے۔ مذہب کے نام پر جذباتی پن کا مظاہرہ البتہ بھرپور ہوتا رہا ہے اب پنجابیوں کو جاگنا چاہئے کچھ اور نہیں تو بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل عام اور ان کے صوبہ سے ”دیس نکالا“ پر ہی کروٹ لے لی جائے۔ آج بلوچستان کے لیڈر پنجابیوں سے جو توقعات کر رہے ہیں پنجابیوں کو ان کی توقعات کی جھولیوں کو تائید و حمایت کے پھولوں سے بھر دینا چاہئے۔
لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی بلوچستان کے لیڈروں کو بھی خود کو چھوٹا بھائی ثابت کرنا ہوگا۔ ان کے کسی قول و عمل سے ثابت نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان ان کےلئے اجنبی جزیرہ بن چکا ہے ان کی زبانوں سے پاکستان کےلئے محبت کی خوشبو¶ں میں بسے الفاظ کی جگہ نفرتوں میں سلگتے آتشیں الفاظ نہیں نکلنے چاہئیں کیا یہ رہنما جو اتفاق سے سب کے سب مختلف قبیلوں کے سردار ہیں ان کے قبائل کی حالت دیکھی جائے تو پسماندگی قرون اولیٰ کا منظر پیش کرتی ہے۔ سردار خود اور ان کے بچے ایچیسن، آکسفورڈ اور کیمبرج میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر قبائلیوں کے لئے مناسب پرائمری سکول بھی نہیں ہیں۔ سردار خود بڑے بڑے کاروبار کرتے ہیں مگر قبائلی عوام کو مویشیوں کے پالنے اور محدود کھیتی باڑی تک محدود رکھا ہوا ہے۔ یہ خود تھری پیس سوٹ زیب تن کریں، ٹائی لگائیں، جمخانوں اور سیون سٹار ہوٹلوں میں قیام فرمائیں مگر قبائلی عوام بوسیدہ لباس پہنیں اور کچے مکانوں میں زندگی بسر کریں، جدید سہولیات صرف اور صرف سرداروں کا مقدر بنے بلوچ سرداروں میں نواب اکبر بگتی واحد شخصیت تھے جن سے میرا براہ راست تعلق رہا حتیٰ کہ بے تکلفانہ گپ شپ بھی، ایک میگزین میں دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے فخریہ انداز میں انکشاف کیا ”میں نے پہلا قتل بارہ سال کی عمر میں کیا تھا جب دشمن اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ رہا ہو تو وہ منتظر کتنا پُرلطف ہوتا ہے آپ (انٹرویو نگار) اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔“ اسے سرداری کی شان سمجھا جائے، سرداری کی روایات سمجھا جائے یا مائینڈ سیٹ قرار دیا جائے۔ کیا بلوچستان میں گورنر اور وزیراعلیٰ رہنے والا کوئی بلوچ سردار یہ مثال پیش کر سکتا ہے کہ حکومتی یا ذاتی وسائل سے مری، مینگل یا بگتی قبائل کا معیار زندگی بلند کرنا دور کی بات ہے ان کے بنیادی سہولتیں اور بہتر روزگار کے مواقع پیدا کئے خود اپنی ہی کاروباری وسعت کے لئے ان علاقوں میں کارخانے اور فیکٹریاں قائم کیں اس کے برعکس کوئٹہ میں آر سی ڈی کے تحت ایوب خان کے دور میں بننے والی بولان ٹیکسٹائل کو برسوں چلنے نہیں دیا گیا جب بھی یہاں کبھی لائٹیں روشن ہوتیں زبردست فائرنگ کی گئی۔ یہ بلوچستان کے عوام کو روزگار مہیا کرنے کا ذریعہ تھا۔ سرداروں نے اس کے فنکشنل ہونے میں کردار کیوں ادا نہیں کیا؟ کیا قبائلیوں کو پسماندہ رکھ کر سرداریوں کو قائم رکھا جا سکتا ہے؟ یہ بُرا ماننے والی بات نہیں ہے اگر سرداروں کی جانب سے حقوق کے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں تو سرداروں سے فرائض کی ادائیگی کے سوالات کو غلط نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ جہاں تک سردار اختر مینگل، نوابزادہ طلال بگتی اور دیگر بلوچ رہنما¶ں کا تعلق ہے آئینِ پاکستان کے دائرے میں ان کے تمام حقوق کا تحفظ بھی ہونا چاہئے اور انہیں پوری طرح ملنے بھی چاہئیں۔ ان میں سے بعض کی جلاوطنی کا کوئی جواز نہیں ہے اگر سردار عطا اللہ مینگل، نوابزادہ طلال بگتی اور دیگر بلوچ رہنما¶ں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ نہیں تو سردار اختر مینگل، براہمداغ بگتی اور حریبار مری بھی بے خوف و خطر آسکتے ہیں۔
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی
Oct 06, 2012