کہتے ہیں سیاسی جماعتیں ایک خاندان کی طرح ہوتی ہیں اس خاندان کے ماں باپ قائدین اور ورکر ان بچوں کی طرح ہوتے ہیں جن کے بغیر گھر مکمل ہونا ممکن نہیں ہوتا جس طرح ہر گھر کے بچے اس خاندان کا مستقبل اور وارث ہوتے ہیں اسی طرح سیاسی جماعتوں کے ورکر بھی مستقبل کی وہ پنیری ہوتے ہیں جو اگر ایک دفعہ لگ جائیں تو پھر وہ جماعتیں کبھی سوکھتی نہیں ہمیشہ ہری بھری رہتی ہیں تمام تر اختلافات کے باوجود یہ ماننا پڑ گا کہ ایم کیو ایم وہ واحد جماعت ہے جس میں ورکر کلاس لیڈر شپ کے طور پر پالش ہوئی۔ یہ ایک علیحدہ بد قسمتی ہے کہ اس لیڈر شپ نے اپنے مخصوص نظریات اور مفادات کی وجہ سے پاکستانی سیاست کو وہoutputنہیں دی جس سے مڈل کلاس اور ورکر کلاس کو تقویت حاصل ہوتی پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ ورکرز کو اپنا عظیم اثاثہ تو قرار دیا لیکن بد قسمتی سے ورکرز کو وہ عزت کبھی نہیں دی جو انکا حق ہوتی ہے بد قسمتی سے وہ خوش کن بیانات دیتے ہیں اور دوسرا چہرہ.... اس چہرے کو رہنے دیں یہ بہت بھیانک، خوفناک اور کریہہ ہے جمہوریت، انسانیت، مساوات کی بات کرنےوالے ان سیاستدانوں کا دوسرا چہرہ اتنا مکروہ ہوتا ہے کہ اگر وہ خود کبھی اُسے دیکھ لیں تو سناٹے میں رہ جائیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا دیکھیں ہی کیوں انکی آنکھوں پر تو تکبر،رعونت اور ذاتی غرض کی ایسی موٹی چادر تنی ہوئی ہے کہ اس میں انہیں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
ماضی میں یہ بات بارہا سامنے آئی کہ ایسی جماعتیں جنہوں نے اپنے سیاسی ورکرز کی growing کی نہ قدر کی جب ان پہ ابتلا پڑی تو وہ تنہا رہ گئیں۔میاں نواز شریف کے پرویز مشرف سے معاہدہ کرکے جدہ جانے کے بعد انکی طاقت کے گڑھ لاہور میں ایک بھی مو¿ثر مظاہرہ نہیں کیاجاسکا انکے رہنما تو موقع ملتے ہی محفوظ سائبانوں تلے چھپ چکے تھے لیکن انکی ورکر کلاس نے بھی آگے بڑھنے کی ہمت نہ کی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدا ر میں رہنے والی جماعتیں جب امتحان کی گھڑی سے گزرتی ہیں تو تنہا کیوں رہ جاتی ہیں اور مشکل وقت میں انکے کارکن باہر کیوں نہیں نکل پاتے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم لیگ ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرتی لیکن ایسا نہیں ہوسکا ورکر کی عزت آج بھی دو کوڑی سے زیادہ نہیں ہے۔اپنی تمام تر وفاداری اور وفاداری کے ثبوت کیلئے دی گئیں قربانیوں کے باوجود آج بھی ان جماعتوں کے ورکرز کی حیثیت اچھوتوں جیسی ہے۔ لیڈر شپ ان ورکرز کو اپنی ذاتی وراثت سمجھتے ہیں۔ انہیں اپنی ذاتی وراثت کی طرح ہی استعمال کرتے ہیں۔ مساوات کا نعرہ اپنی جگہ لیکن جتنی طبقاتی نفرت اور خلیج خود ان جماعتوں میں موجود ہے اسکا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔لیڈرز کیلئے ورکرز صرف مار کھانے، جیلیں بھگتنے،لاٹھی چارج شیلنگ، بدترین پولیس تشدد سے اپاہج اور عمر بھر کیلئے معذوری مول لینے والی مخلوق کے علاوہ کچھ نہیں۔حقارت دھتکار پھٹکار ان ورکرز کا مقدر ٹھہرتی ہے انکے بچے یتیمیاں کاٹتے کاٹتے مر جاتے ہیں۔بم دھماکوں میں یہ مارے جاتے ہیں تحریک نجات،لانگ مارچ جمہوریت کی تحریکیں اور اسکے نتیجے میں آنےوالی حکومتوں کی بنیادوں میں ان ورکرز کا ہی خون ہوتا ہے لیکن حکومت آنے کے بعد ان ورکرز کا داخلہ اقتدار کے ایوانوں میں ممنوع ہو جاتا ہے پلاٹ، مراعات، قرضے، ملازمتوں کے نام پر کوٹے ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں کے فنڈز سب کچھ ملتے ہیں تو حکمرانوں اور انکے پیاروں اور انکے پیاروں کے پیاروں کیلئے ہوتے ہیں۔
وزارتوںکی بندربانٹ ہوتی ہے اپنے رشتے داروں کو accomodate کیاجاتا ہے۔بچ جانےوالی وزارتیں ماضی کی financial کارکردگی کو سامنے رکھ کردی جاتی ہیں۔اس financial کارکردگی میں یہ دیکھاجاتا ہے کہ کس نے ماضی میں لیڈروں پر کتنے پیسے خرچے ہیں کس نے کس جلسے میں کتنے لاکھ روپے کی investment کی کس نے لیڈر شپ کے اوپر مختلف حیلے بہانوں سے نوٹوں سے خدمت کی۔ یہی معیار پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت اپنا یاجاتا ہے بھلا دو وقت روٹی کیلئے مارا مارا پھرنے والا غریب ورکر ٹکٹ خریدنے کیلئے پارٹی فنڈ میں کہاں سے لاکھوں روپے جمع کرائے گا کہاں سے وہ اپنے لیڈر کی خواہشیں پوری کرنے کیلئے لاکھوں کی بازی کھیل سکے گا۔ جب ایک لیڈر کو پورے ملک کی سیاست کے نام پر سیاحت کیلئے کوئی اپنا ذاتی طیارہ فراہم کرےگا تو اس علاقے میںچاہے کسی ورکر نے اپنے خون سے wallchalking بھی کی ہو تو اس علاقے کی ٹکٹ، صدارت اور پگ اُسے ہی ملے گی جسکا جہاز ہوگا۔
بات پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، تحریک انصاف ،جماعت اسلامی یا کسی بھی اور سیاسی جماعت کی نہیں بات اُس سوچ کی ہے اُس اپروچ کی ہے جس میں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں جس میں امرا ءلیڈری کے نام پر ورکرز کی شکل میں غلاموں کی فوج پالنا پسند کرتے ہیں۔ یہ غلاموں کی فوج ان کیلئے اپنی جانوں کی، اپنے خوابوں کی قربانیاں پیش کرتی ہے تاریک راہوں میں ماری جاتی ہے جرم ضعیفی کی سزا بھگتتی ہے آنسو گیس کی شیلنگ کا سامنا کرتی ہے اور خون تھوکتے تھوکتے مرجاتی ہے اور مرتے ہوئے بھی انکے لبوں سے شکوہ بلند ہوتا ہے نہ آہ نکلتی ہے۔
اس ملک کو بنے 64سال ہوچکے پاکستان کی سیاست آج بھی وڈیروں، چوہدریوں، نوابوں، طاقتوروں کی رکھیل ہے وہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے پارٹیاں اور سیاسی نظریات بدلنے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے،بد نصیب ورکر جس وقت اپنے سیاسی نظریات کے نام پر دوسری جماعت کے کارکنوں سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں تو انکی لیڈر شپ جم خانوں کلبوں میں عیش و عشرت کی محفلوں میں ایسے شیرو شکر ہورہے ہوتے ہیں جیسے کہ ان میں کبھی کوئی اختلاف ہی نہ رہا ہو۔ اب تو پاکستانی سیاست میں اخلاقی اقدار کی گراوٹ اس سطح پر آگئی ہے کہ ریوڑ کے ریوڑ راتوں رات forward بلاکوں، unification بلاکوں،نظریاتی گروپوں کے نام پر یوں بک جاتے ہیں جیسے وہ پیدا ہی اپنی قیمتیں وصول کرنے کیلئے ہوئے ہیں۔ میرا آج کا کالم ان عظیم نظریاتی کارکنوں کے نام ہے جن کے دم سے پاکستان میں نظریات زندہ ہیں۔ سچائی زندہ ہے جمہوریت کا اصل حسن زندہ ہے۔ یہی جمہوریت کے ماتھے کا وہ جھومر ہیں جنکی کرنوں سے جمہوریت کا چہرہ روشن ہے‘ جن سے سچائی زندہ ہے۔وفاداری کے یہ وہ روشن ستارے ہیں جنہوں نے بے اُصولی لالچ، خود غرضی، چھینا جھپٹی، ضمیر فروشی کے اندھیروں میں شمع جلا کر رکھی ہے۔
میرا انہیں سلام میرا انہیں سلام