سوئس حکام کو خط کا مسودہ ‘ حل سے چند انچ دور ہیں : سپریم کورٹ ‘ ڈرافٹ پر عدالت کا تیسری بار اعتراض حکومت کو 10 اکتوبر تک مزید مہلت نائیک کا

Oct 06, 2012

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نیٹ نیوز + بی بی سی + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں حکومت کی جانب سے سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کے تیسرے مسودہ پر بھی اعتراض کرتے ہوئے حکومت کو ایک بار پھر حتمی مسودہ کی تیاری کے لئے 10 اکتوبر تک مہلت دے دی ہے۔ بی بی سی کے مطابق وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں دوٹوک م¶قف دینے سے معذوری ظاہر کی کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے لئے سوئس حکام کو لکھا جانے والا خط این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے سے مطابقت رکھے گا۔ وزیر قانون نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں اس ضمن میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے مشاورت کے لئے وقت دیا جائے کیونکہ حتمی فیصلہ وزیراعظم نے ہی کرنا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ حل ہونے کے قریب ہے اس لئے عدالت حکومت کو چند روز کی مزید مہلت دینے کو تیار ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ بہت سے معاملات کو حل کر لیا گیا ہے اور کچھ پہلو رہتے ہیں جن پر حکومت نے ابھی عمل کرنا ہے۔ عدالت این آر او کے فیصلہ کے پیراگراف 178 پر عمل درآمد چاہتی ہے اس لئے حکومت کو مسودے کو حتمی شکل دینے کیلئے 10 اکتوبر تک مہلت دی جاتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس اعجاز احمد چودھری، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اطہر سعید پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بنچ نے این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کو مقدمات کھولنے کیلئے خط نہ لکھنے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو جاری کئے گئے توہین عدالت نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کی ابتدا میں وزیر قانون فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی آبزرویشن اور پیرا 178 کے مطابق تیار کیا گیا خط کا نیا ڈرافٹ جمع کرا دیا ہے، سپریم کورٹ کو پھر بھی کچھ اعتراض ہے تو جائزہ لےکر بتائے۔ حکومت کی یہی سوچ ہے کہ ملک کی بہتری کیلئے ادارے کام کرتے رہیں اور نظام چلتا رہے۔ ملکی نظام چلانے کے لئے اداروں کو تعاون کرنا چاہئے، توقع ہے عدلیہ بھی معاملے کی حساسیت کا خیال رکھے گی۔ حکومت عدلیہ اور اس کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے، حکومت کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے۔ اس کے بعد ججز نے نئے خط کے مسودے کا جائزہ لیا اور مسودے پر مزید غور کیلئے سماعت میں وقفہ کر دیا گیا، ججز کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو فاروق ایچ نائیک کو چیمبر میں بلایا جائے گا جس کے بعد ججز مسودہ لے کر اپنے چیمبر میں چلے گئے تاہم فاروق نائیک کو چیمبر میں طلب نہیں کیا گیا۔ عدالتی وقفے کے بعد مقدمہ کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے خط کے مسودے کے تین پیرا گراف میں سے پہلے دو پیرا گراف کو درست قرار دےتے ہوئے کہا کہ یہ پیراگراف عدالتی فیصلے کے مطابق ہیں جبکہ عدالت کی جانب سے تیسرے پیرا گراف پر اعتراض کیا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ پیرا عدالتی فیصلے کے پیراگراف 178 کی روح کے مطابق نہیں ۔جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ مسودے کا تیسرا پیراگراف پہلے دو پیراگراف کی نفی کرتا ہے اس لئے حکومت تیسرے پیراگراف پر غور کرے۔ ان کا کہنا تھا معاملہ حل ہونے سے چند انچ کے فاصلے پر ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے پہلے کہا تھا کہ مزید مہلت نہیں دیں گے تاہم خط میں مزید درستگی کے لئے دو دن کی مہلت دی جا سکتی ہے۔ ہم طویل سفر کے بعد یہاں پہنچے ہیں اس سفر کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اس موقع پر وزیر قانون نے کہا کہ خط کے تیسرے پیراگراف پر عدالت کے تحفظات 15 منٹ میں دور کئے جا سکتے ہیں لیکن انہیں ججز اپنے چیمبر میں سنیں۔ چیمبر میں انہیں 15 منٹ دیئے جائیں تاکہ عدالتی اعتراض کے بارے مےں وزیر اعظم کو بتا سکیں۔ خط کو کھلی عدالت میں ظاہر نہ کیا جائے ہم مزید کوشش کر کے مسئلہ کا حل نکال سکتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد بھی مسئلہ حل کرنا ہے اس لئے آپ سے چیمبر میں بات کر سکتے ہیں ورنہ ہم چیمبر میں سماعت سے ہچکچاتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ معاملات حساس ہیں کھلی بات کرنے سے معاملات خراب بھی ہو سکتے ہیں۔ عدالتی وقار برقرار رہےگا اور وفاق کے تحفظات دور ہو جائیںگے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں کہ مقدمہ کی سماعت میں شفافیت ہو۔ ججز دوبارہ اٹھ کر اپنے چیمبر میں گئے اور وزیرقانون اور وفاق کے وکیل وسیم سجاد کو بھی اپنے چیمبر میں طلب کر لیا۔ مقدمہ کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وفاقی وزیر قانون نے عدالت سے استدعا کی کہ کیونکہ انہوں نے عدالتی اعتراض کے بارے میں وزیراعظم سے مشاورت کرنی ہے اس لئے 10 اکتوبر تک مہلت دی جائے تاکہ حتمی مسودہ عدالت حکم کے مطابق تیا ر کیا جا سکے جس پر عدالت نے حکم جاری کیا کہ عدالت نے 26 ستمبر کو حتمی مسودہ پیش کرنے کی اجازت دی تھی۔ ترمیم شدہ مسودہ پیش کیا گیا اور فاروق نائیک کی درخواست پر خط کا جائزہ چیمبر میں لیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ بہت سے معاملات کو حل کر لیا گیا ہے۔ عدالت نے وفاقی وزیر قانون کی استدعا منظور کرتے ہوئے مقدمہ کی مزید سماعت 10 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + اے پی پی) وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ وزیراعظم سے مشاورت کر کے عدالت کو بتاﺅں گا، کوئی یقین دہانی نہیں کرا سکتا کہ کیا لاﺅں گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ خط عدالتی حکم کی روشنی میں بنایا گیا، وزیراعظم نے اسے منظور کیا۔ ججز نے خط کے مسودے پر اپنے تحفظات بتائے۔ ہم نے بھی اپنے تحفظات سپریم کورٹ کو بتائے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 248 کی ذیلی شق 2 کے تحت صدر کو مقدمات سے مکمل استثنیٰ پر آئین بالکل واضح ہے۔ صحافی نے سوال کیا کہ عدالت کو کس چیز پر اعتراض ہے؟ وزیر قانون نے جواب دیا کہ وقت آنے پر بتاﺅنگا ابھی کچھ نہیں بتا سکتا۔کئی چیزیں حساس نوعیت کی ہیں جو باہر نہیں آسکتیں۔ ہم چاہتے ہیں معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوں ہم لچک دکھا رہے ہیں اسی لئے تمام چیزیں دیکھ کر وقت مانگا۔ خط کے حتمی متن کے بار ے میں ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ جمہوری نظام پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے، ہماری سوچ ہے کہ نظام چلتا رہے وقت آ گیا ہے کہ ملک کے لئے ہر چیز سے بالاتر ہو کر اٹھ کھڑے ہوں۔ اے پی پی کے مطابق فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے، حتمی نتیجہ تک پہنچنے کیلئے دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ این آر او کیس کے حوالہ سے سوئس حکام کو خط کا مسودہ آئین کے پیرا 178 اور عدالتی احکامات کے مطابق لکھا گیا۔ عدالت عظمیٰ سے وزیراعظم کے ساتھ مزید مشاورت کےلئے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے انہیں 10 اکتوبر کی مہلت دی ہے۔ آئندہ تاریخ پر یہ مسئلہ عدالت کے سامنے آجائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 248 کے پیرا 2 میں ریاست کے سربراہ کو اس وقت تک آئینی تحفظ دیا گیا ہے جب تک وہ اپنے عہدے پر موجود ہیں۔ خط کے مسودے کا حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ جمہوریت، ملکی سالمیت، عدلیہ اور دیگر اداروں کی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ مشاورت کے بعد تمام معاملات سامنے آجائیں گے اور امید ہے معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے۔
فاروق نائیک

مزیدخبریں