میری قربانی؟ کہاں اسمعیلؑ کا آدابِ فرزندی؟

Oct 06, 2014

نعیم مسعود

عید مبارک جی عموماً زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ (1)انفرادی زندگی(2)اجتماعی زندگی انبیاء کرام ؑ کی بات کر لیں، صحابہ کرام ؓ کو دیکھ لیں، امام و پیشوا کی زندگانی کا جائزہ لیں یا ولی اللہ کے اقوال و افعال کو دیکھ لیں۔ یہ سبھی انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام درست کرنا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ یہ اجتماعیت اور انفرادیت کو الگ الگ رکھ کر دیکھتے ہی نہیں پیشوا یا لیڈر کبھی چوری کھانے والا مجنوں نہیں ہوتا بلکہ وہ انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے جہد مسلسل کا عملی نمونہ ہوا کرتا ہے…… عملی نمونہ!!!
بد قسمتی اس وقت جنم لیتی ہے جب معاشرہ یا ووٹرز پسندیدہ انسان اور نا پسندیدہ انسان میں فرق نہ کرتا ہے اور نہ دیکھتا ہے ۔ جدید دور کا حرص و ہوس کا پتلا سیاستدان اور لیڈر نفس کی قربانی سے لے کر دیگر قربانیوں تک سے ہمیشہ گریزاں رہا۔ سیاست جو در حقیقت عبادت کا دوسرا نام ہے اس کو جو بھی ’’ سیاہ ست‘‘ کی مے بنا کر چڑھا گیا اس نے ہمیشہ لوگوں سے قربانی لی۔ کبھی جذباتی بلیک میلنگ سے ’کبھیفریب سے‘ کبھی گر گٹ کی طرح رنگ بدل کر اور کبھی لوٹا ازم کی سیاست کاری کرنے والا انسانیت کے بنیادی حقوق کو جب سمجھ ہی نہیں سکتا تو وہ قربانی یا اس کے فلسفے سے آشنا کیسے ہو سکتا ہے؟ نماز ہو روزہ یا حج اور زکوۃ اس پر دشمنان اسلام بھی غور کریں تو وہ اسے مکمل انفرادی اور وسیع تراجتماعی تعمیر سمجھتے ہیں۔ وہ اسے پلیدی دور کرنے اور پاکی کو قربتیں بخشنے کا سبب جانتے ہیں اسی طرح قربانی وہ چاہے مال و متاع کی ہو زکوۃ و عشر و صدقہ اور خیرات کی شکل میں ہو کسی جانور کی ہو خاص موقع اور خاص جگہ پر ان سب اشیاء اوراعمال کا تعلق انفرادیت سے بڑھ کر اجتماعی فکر و عمل کا ہے۔
سیاست سے قربانی تک کے حوالے سے احکام الٰہی یوں ہیں کہ ’’ اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار حد اعتدال سے تجاویز کر گیا ہے ۔‘‘(الکہف آیت28۔پارہ15)
غور طلب بات یہاں’’ حد اعتدال ‘‘ سے تجاوز کرنا ہے۔ لیڈر حد اعتدال سے تجاوز کرے یا ووٹر ، ان دونوں صورتوں میں سیاست ، جمہوریت، معیشت، انسانیت اور ریاست کا حد اعتدال سے تجاوز کرنا ہے۔ایسی صورت میں کوئی مجاہد ہے نہ جہاد نہ قربانی ہے اور نہ ایثار ۔قربانی کی بھی کئی اقسام ہیں لیکن ہر قربانی کا فلسفہ ایک ہی کہ جان و مال کو اللہ کی راہ پر صرف اللہ ہی کے نام پر سبق ،اصلاح، رفاہ، فلاح اور تعمیر سازی کے لئے قربان کرنا۔ خالق حقیقی کا فرمان ہے کہ ’’ ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا تا کہ (اس امت کے)لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں(ان مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اس کے تم مطیع فرمان ہو۔‘‘(الحج آیت34من۔پارہ17) پھر آگے جا کر رب تعالیٰ فہم و فراست کے لئے آسانی فراہم کرتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ ’’ نہ ان کے قربانی کے جانوروں کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون ، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمہارے لئے اس طرح مسنحر کیا ہے تا کہ اس کیبتائی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو، اور اے نبیؐ بشارت دے دے نیکو کار لوگوںکو ۔‘‘ (الحج آیت 37پارہ 17)۔
قربانی کا جانور خریدنے سے اس پر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر چھری چلانے سے لے کر گوشت کے تین حصوں میں تقسیم کاری اور حق داروں تک گوشت پہنچنے اور پہنچانے کے سب عوامل پر ذرا غور کر کے تو لیکن امت مسلمہ میں عید قرباں ،قربانی اور سنت ابراہیمی کس طرح انسانی تعمیر اور معاشرتی بنائو کو فروغ دیتے ہیں۔
جب ایک کثیر رقم سے، پورے ذوق کے ساتھ قربانی کا جانور خریدا جاتا ہے پھر اس کا گوشت بنایا جاتا ہے تو قدم قدم پر بندہ رب کعبہ کی خوشنودی چاہتا ہے۔ وہ موقع ہے کہ جس پر حرص و ہوس، بناوٹ ، اقربا پروری، کینہ اور بغض کے علاوہ بگاڑ کو کہیں دور پھینک دینا چاہئے۔ قارئین کرام! آج اس مبارک موقع پر ہم سب کی ایک کوشش ہونی چاہئے اور ہم سب کو مل کر اس بات پر زور دینا چاہئے کہ خوشی کو انفرادی نہیں رہنا چاہئے بلکہ اجتماعی ہونی چاہئے۔ گوشت کی خوشی کو اپنی فریج، اپنے نئے نئے سمدھیوں، اپنے ہی بہنوئی، سالے یا داماد تک محدود نہیں کرنا ہے۔ اس خوشی کو خوشبو کی طرح پھیلانا ہے۔ سامنے نظر آنے والی خوشی تک ہی محدود نہیں رکھنا بلکہ ’’خوشی در خوشی‘‘ تک کے پھیلائو کو مدنظر رکھنا ہے۔ یہ اُس وقت ممکن ہے جب خوشی کو دریافت کریں گے --- دریافت کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے؟ کوئی غریب فراموش نہ ہو اور کوئی سفید پوش فراموش نہ ہو۔ گھر کے ایک کونے میں اکیلے بیٹھ کر 5 منٹ سوچئے کون سا عزیز، کون سا دوست ایسا ہے جو قربانی کا جانور نہیں خرید سکا۔ ہاں بہت سے لوگ کبھی کبھی بہت مجبور ہوتے ہیں لیکن زمانہ انہیں امیر سمجھتا ہے۔ ایسے سفید پوشوں کے گھر سورج غروب ہونے تک گوشت اس لئے نہیں پہنچتا کہ سب سمجھتے ہیں کہ اُس نے قربانی کا جانور خریدا ہو گا، قربانی دی ہو گی۔
 بس ظاہری وضع قطع سے احباب کو دھوکے کا معاملہ ہو جاتا ہے۔ کبھی کسی کے دل پر اس طرح بیتی ہے کہ بچے روز ایک جانور پسند کر کے باپ کو کہتے ہیں کہ یہ لیں گے، وہ لیں گے، وہ دل رکھنے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ ہاں ہاں ضرور لیں گے۔ آخر عید الاضحی کا سورج طلوع ہو جاتا ہے اور وہ بچوں کو پھر بہلا پھسلا کر مطمئن کر لیتا ہے۔ فرض کریں آپ کے اُس دوست اور اُس عزیز کو قربانی کے گوشت کا انتظار ہو، امید ہو اور اُس نے عید سے پہلے گوشت کا اہتمام بھی نہ کر رکھا ہو اُس کی ہر نظر اور ہر سماعت اُس دستک کی طرف لگی ہو کہ گوشت آ رہا ہے، کوئی پیارا، کوئی اپنا ابھی گوشت بھیج دیتا ہے کیونکہ اس گوشت کا تعلق صرف خورد و نوش سے نہیں ہوتا بلکہ جذبات اور عقیدت سے ہوتا ہے۔ روایت اور محبت کے علاوہ خلوص اور مذہب کی حقانیت سے بھی ہوتا ہے۔ وہ قربانی جس کا تعلق، اصل تعلق اسمٰعیلؑ کی توحید پرستی اور آدابِ فرزندی سے۔ وہ قربانی جو دنیا کی سب سے بڑی اور عزیز قربانی بلکہ مشکل ترین قربانی پیغمبر ابراہیمؑ کا اپنے پیغمبر فرزند اسمعٰیلؑ پر براہ راست اللہ کے حکم پر چُھری چلانا لیکن اللہ تعالیٰ کی رحیمی کریمی کا اسمٰعیل کو ذبح نہ ہونے دینا اور وہاں قربانی کا جانور بھیج دینا۔ ہاں ہاں اُس قربانی کی یاد کی قربانی، سُنت ابراہیمیؑ کی قربانی کا گوشت مستحق تک نہ پہنچا تو کہاں پہنچا؟

مزیدخبریں