حضرت ابراہیم ؑجد انبیاءہیں۔ قربانی ان کی سنت ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ .... قربانی کتنا عظیم عمل ہے اور اللہ کو یہ عمل کتنا محبوب ہے۔ عمل جتنا عظیم ہو .... اس کا اجر بھی اتنا ہی عظیم و جلیل ہوتا ہے۔ لفظ قربانی.... قرب سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربان سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب و تعلق حاصل ہو۔ عیدالاضحیٰ کے دن جانور کو لٹانا، اس کے گلے پر چھری چلانا اسے ذبح کرنا.... یہ سب کچھ رسماً اور عادتاً کیا جائے تو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوہ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کے لئے انسان کو پہلے ان مراحل کو سامنے رکھنا پڑتا ہے جن سے حضرت ابراہیم ؑ گزرے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی ساری زندگی، سفرو حضر.... بچپن، جوانی، بڑھاپا، بیوی بچے .... مسلسل قربانیوں سے عبارت ہے۔ آبائی وطن، گھر اور ماں باپ.... انسان کے لئے محبتوں کا گہوارہ اور شفقتوں کا مسکن ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی خاطر یہ سب رشتے، ناطے ، تعلق چھوڑے اور توڑے۔ آبائی وطن چھوڑ کر مصر پہنچے تو وہاں بھی قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ آتش نمرود میں پھینکا گیا تو وہ آپ کے ایمانی جذبے کی بدولت گل و گلزار ہوگئی۔ مصر سے فلسطین پہنچے تو لبوں پر دعا تھی اے میرے رب! مجھے نیک بیٹا دے دے۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کو شرف قبولیت بخشا خوبصورت بیٹا عطا کیا تو اس وقت سیدنا ابراہیم ؑ کی عمر مبارک 80برس تھی۔ اللہ کے خلیل قربانیوں، آزمائشوں اور سفروں کے طویل تسلسل سے بوڑھے ہو چکے اور کمر جھک چکی تھی۔ یہ عمر آرام کرنے، خدمت کروانے اور بیوی بچوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ہوتی ہے۔ بڑھاپے کی اس عمر میں رب جلیل اپنے خلیل کو حکم کرتے ہیں کہ اپنی ہمدردومونس اہلیہ اور اپنے لخت جگر نور نظر کو خود سے جدا کر دو ایک بے آب و گیاہ وادی .... مکہ جہاں اس وقت خوردونوش، بنیادی ضروریات زندگی اور پانی کا نام ونشان تک نہ تھا وہاں چھوڑ دو۔ وفاﺅں کے پیکر خلیل اللہ ؑ بلاتامل اپنے بیٹے اور اہلیہ کو وہاں جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ جب خلیل ؑ وادی غیر ذی ذرع مکہ میں انپے بیوی بچے کو چھوڑ کر واپس فلسطین روانہ ہونے لگے تو سیدہ ہاجرہ آگے بڑھ کر اونٹ کی مہار پکڑ لیتی اور یوں گویا ہوتی ہیں ”آپ کہاں جانے لگے....؟“ سیدنا ابراہیم خاموش ہیں، زبان پر کوئی بات نہیں آخر سیدہ ہاجرہ پوچھتی ہیں ”آپ ہمیں کس کے سپرد کر کے جا رہے ہیں....؟“ جواب ملا اللہ کے سپرد۔ سیدہ ہاجرہ سمجھ گئیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ پیکر تسلیم و رضا سیدہ ہاجرہ بولیں ”تب آپ تشریف لے جایے اللہ ہماری حفاظت کرے گا اور ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔“بیوی بچے کو خود سے جدا کر دینا اور بیابان میں چھوڑ دینا بہت بڑی قربانی تھی لیکن اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو اسی طرح قربانیوں سے آزماتا اور آزمائشوں پر پورا اترنے والوں کو انعامات سے نوازتا ہے۔جب ابراہیم ؑ مکہ سے فلسطین کی طرف روانہ ہونے لگے تو تن تنہا بیوی بچے سے جدا تھے اور لبوں پر یہ دعائیہ کلمات تھے اے میرے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو بے آب وگیاہ میدان میں لابسایا ہے جو تیرے عزت والے گھر کے پاس ہے (تاکہ) اے میرے رب یہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور پھلوں کی پیداوار سے ان کو رزق دے تاکہ وہ شکر گزاری کریں۔ ادھر سیدہ ہاجرہ کے پاس موجود پانی اور کھجوریں ختم ہو گئیں۔ لخت جگر اسماعیل ؑ بھوک اور پیاس کی وجہ سے بلکنے لگے تو اماں ہاجرہ تڑپ اٹھیں۔ صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پر چڑھ کر بے تابانہ ادھر ادھر دوڑنے لگیں اللہ کو اپنی نیک بندی کا پانی کی تلاش میں دوڑنا اتنا پسند آیا کہ اس عمل کو ہمیشہ کے لئے حج وعمرہ کا حصہ بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ماں بیٹے کیلئے پانی کا چشمہ جاری کر دیا جو آج تک جاری ہے۔ جہاں پانی ہو وہاں آبادی ہو جاتی ہے چنانچہ بنوجرہم کے کچھ لوگ زم زم کے چشمے کی وجہ سے وہاں آباد ہو گئے۔بیوی اور بیٹے کی جدائی کچھ کم قربانی نہ تھی لیکن خلیل ؑ کی قربانیوں کا سفر ابھی جاری تھا۔ سیدنا اسماعیل ؑ ابھی چلنے پھرنے، سمجھنے اور بولنے کے قابل ہوئے ہی تھے کہ ایک دن ابراہیم ؑ رب کا ایک اور حکم لے کر آئے اور کہا اے فرزند! اللہ نے تمہاری قربانی مانگی ہے اور حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر دوں بتاﺅ تمہاری کیا رضا ومنشا ہے؟ اس منظر کو ذرا تصور میں لایے کہ جب لمبی جدائی کے بعد خونی رشتوں کا ملاپ ہو تو باپ ایک لمحے کے لئے بھی اپنے لخت جگر کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا لیکن یہاں تو معاملہ اور حکم ہی بالکل مختلف تھا کہ بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دو.... فرمانبردار بیٹے نے بلاتامل جواب دیا اباجان! اللہ کے حکم کو پورا کیجئے مجھے اللہ کی راہ میں قربان کیجئے آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ دونوں باپ بیٹا وفاداری و اطاعت گزاری کا پیکر بن کر قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہو گئے۔ باپ نے بیٹے کو پہلو کے بل لٹا لیا اور چھری چلانے کیلئے گلے پر رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو آواز دے کر کہا تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ اللہ نے اسماعیل ؑ کو محفوظ رکھا۔ ان کی جگہ جانور کی قربانی کروا دی اور اس قربانی کو اپنے خلیل کی سنت بنا کر مسلمانوں کیلئے جاری کر دیا تاکہ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار وقربانی کا ابراہیمی معیار قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے قائم ہو جائے اور مسلمانوں سے ہمیشہ اس معیار کی قربانی لے جائے۔اگرچہ آج امت محمدیہ کیلئے حالات مشکل ہیں لیکن یاد رکھیئے! جب ابراہیم ؑ نے توحید کی دعوت کا کام شروع کیا اور جب محمد رسول اللہ نے ایک جہادی جماعت تیار کی........ حالات اس وقت بھی مشکل تھے۔ پس آئیے جدِ انبیاءکی دعوت توحید اور خاتم الانبیاءکی دعوت جہاد کے ساتھ میدان میں اتریں۔ کامیابی تب ملے گی جب اللہ کی شرطوں کو پورا کریں گے۔ مخلصین و موحدین کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قربانیوں کی راہ اختیار کریں۔ ابراہیم ؑ کی طرح گھر بار، خاندان، وطن، قبیلہ، بیوی بچے اور برادریاں چھوڑنا پڑیں.... تو چھوڑ دیں۔ گھروں اور خاندانوں کو توحید کی دعوت دیں.... لیکن جب بات فیصلے کی ہو تو فیصلہ وہی کریں جو ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے سامنے کیا تھا۔ بلاخوف و خطر دعوت وجہاد کے میدانوں اور ایوانوں میں کھڑے ہو جائیں۔ مصیبتیں آئیں تو اللہ کے لئے برداشت کریں.... جلتی آگ دکھا ئی جائی تو پروا نہ کریں۔ دین کا ہر پہلو پیش کریں سود کے خلاف قرآنی احکام بیان کریں۔ بے حیائی کے خلاف بات کریں۔ غیر مسلموں سے دوستیوں کی مذمت کو موضوع بنا کر حکمرانوں اور عوام کے عقائد کی اصلاح کریں۔ اس راہ میں مشکلات آئیں تو خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔