عید الاضحی سے دو روز قبل کوئٹہ، کوہاٹ، ٹانک اور مٹہ میں دہشت گردی کی گھنائونی وارداتیں…ملک اب دہشت گردی روکنے میں سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا متحمل نہیں ہو سکتا

عید الاضحی سے دور روز قبل کوئٹہ میں خودکش حملے اور کوہاٹ میں بم دھماکے کے نتیجہ میں 12 افراد جاں بحق اور 42 زخمی ہو گئے۔ بی بی سی کے مطابق دہشت گردی کے ان واقعات میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ کوئٹہ میں اسی روز دہشت گردی کی ایک دوسری واردات بھی ہوئی جس میں اسپنی روڈ پر فروٹ کی گاڑی میں نصب بارودی مواد پھٹنے سے ایک خاتون اور بچے سمیت 9 افراد زخمی ہوئے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ حملہ ڈی ایک ایس پی پر کیا گیا تاہم وہ محفوظ رہے جبکہ اس سے قبل ہزارہ ٹائون کے علاقے علی آباد میں لوگ عید کی خریداری میں مصروف تھے کہ خودکش حملہ ہو گیا جس میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس خودکش حملے میں دو خواتین سمیت چھ افراد جاں بحق اور خواتین اور بچوں سمیت 23 افراد زخمی ہوئے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے اس خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اسی روز کوہاٹ میں ہنگو روڈ پر ایک مسافر وین میں رکھا گیا پانچ کلو گرام کا دھماکہ خیز مواد ریموٹ کنٹرول سے اُڑا دیا گیا جس کے نتیجہ میں چھ افراد جاں بحق اور 19 زخمی ہوئے، دہشت گردی کی اس واردات میں دو گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے دہشت گردی کی اس واردات میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے لئے پانچ پانچ لاکھ اور زخمیوں کے لئے دو دو لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔
علاوہ ازیں وادی سوات کی تحصیل مٹہ میں بھی دہشت گردی کی ایک واردات میں امن کمیٹی کے رکن سمیت دو افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ ٹانک میں امن کمیٹی کے سربراہ شیر پائو محسود کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ کیا گیا جس میں وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے پشاور اور سوات میں دو پولیس افسروں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ ہمارے ساتھیوں کی جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو فورسز کو آنے والے دنوں میں اپنے خلاف سخت ترین کارروائیوں کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ دوسری جانب بلوچستان دہشت گردی کی ذمہ داری یونائیٹڈ بلوچ آرمی نامی تنظیم نے قبول کر لی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے ہزارہ ٹائون دہشت گردی کے خلاف تین روزہ اور بلوچستان شیعہ کونسل نے سات روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
عید الاضحیٰ سے قبل ایک ہی روز کوئٹہ، کوہاٹ ہنگو روڈ، سوات کی تحصیل مٹہ اور ٹانک میں یکے بعد دیگرے ہونے والی دہشت گردی کی ان وارداتوں سے دہشت گرد کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے، یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں جبکہ دہشت گردی کی ان گھنائونی وارداتوں سے مذہبی رواداری اور تحمل و برداشت کے فقدان کا جو پیغام ملا وہ بذاتِ خود ایک المیہ ہے کہ اسی تناظر میں ہمارے مذہب پر دہشت گردی کا ملبہ ڈال کر اقوام عالم میں مسلمانوں کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے بالخصوص مذہبی تہواروں کے موقع پر دہشت گردی کا مقصد مذہبی حوالے سے ہمارا تشخص خراب کرنے کا ہوتا ہے اور اگر دہشت گردوں کے خلاف گذشتہ چار ماہ سے جاری اپریشن ضرب عضب کے باوجود دہشت گرد عناصر اپنی مذموم کارروائیوں سے دین اسلام اور مسلمانوں کا تشخص خراب کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ گذشتہ ہفتے کور کمانڈرز میٹنگ میں اپریشن ضربِ عضب پر اطمینان کا اظہار کیا گیا مگر اس کے اگلے ہی روز پشاور اور گلگت میں بم دھماکوں کے نتیجہ میں دس افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے جبکہ پشاور میں اسی روز ایک پولیس انسپکٹر کو ٹارگٹ کلنگ کے دوران قتل کر دیا گیا۔ پشاور اور گلگت میں ہونے والی دہشت گردی کی ان وارداتوں میں بھی ایک فرقے کے لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا جس کا مقصد بادی النظر میں ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھا کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا ہی نظر آتا ہے جبکہ اس تاثر کو اب کوئٹہ اور کوہاٹ کی دہشت گردی سے بھی تقویت حاصل ہوئی ہے کہ ان دونوں وارداتوں میں بھی ایک مخصوص فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت اور پھر نگران دور حکومت میں تو بلوچستان میں فرقہ ورانہ تاثر پر مبنی دہشت گردی کو انتہا تک پہنچا دیا گیا تھا جب ایک مخصوص فرقے کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں اپنے پیاروں کے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے پر ان کی میتیں سامنے رکھے حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنے نظر آتے تھے اور بلوچستان کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کو اسی بنیاد پر حکومت سے سبکدوش بھی ہونا پڑا مگر بلوچستان میں گورنر راج کے دوران بھی اور پھر نگران دور حکومت میں بھی فرقہ ورانہ تاثر پر مبنی دہشت گردی کا سلسلہ رُک نہ سکا جس کے بارے میں نمائندہ شیعہ تنظیموں کی جانب سے دوٹوک رائے بھی سامنے آتی رہی کہ فرقہ ورانہ دہشت گردی کے تاثر کے تحت مسلمہ اُمہ میں افتراق و انتشار پیدا کرنے اور اتحاد بین المسلمین میں نقب لگانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں جبکہ یہ دہشت گردی کی ایسی ننگی وارداتیں ہیں جن کا مقصد ملک کے استحکام و وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور اقوام عالم میں دین اسلام کا تشخص خراب کرنا ہے۔ اگر فی الواقع ایسا ہے تو بھی یہ صورتحال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ دہشت گرد عناصر ہماری اپنی صفوں میں موجود ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جبکہ دہشت گردی کے ناسُور نے ہمارے بھاری جانی نقصانات کے علاوہ ہماری معیشت کا عملاً دیوالیہ نکال دیا ہے۔ دو روز قبل اپنے خطبۂ حج اکبر میں مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز عبداللہ آل شیخ نے اسی تناظر میں مسلم اُمہ کو جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے کہ جو طبقہ معاشرے میں فتنہ فساد برپا کر رہا ہے اور اپنے کلمہ گو بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہا ہے وہ طبقہ حضرت نبی کریمؐ کے ارشاد کے مطابق خوارج میں شامل ہے جس کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مفتی اعظم سعودی عرب تو اپنے خطبہ حج میں دینِ اسلام کا یہ واضح تشخص اجاگر کر رہے تھے کہ کسی بے گناہ کو قتل کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے مگر ان کے ان ارشادات سے قبل بھی، اس کے دوران بھی اور ان ارشادات کے بعد بھی خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ جاری رکھ کر بے گناہ انسانوں کی زندگیوں کو اپنی جنونیت کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی تو اس سے سیدھا سیدھا یہی مُراد ہے کہ دہشت گردی میں ملوث افراد کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دہشت گردی کی گھنائونی وارداتوں کے ذریعے امن و سلامتی کے ضامن دینِ اسلام کا تشخص خراب کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دہشت گرد عناصر آپریشن ضربِ عضب کے دوران بھی ملک کے مختلف علاقوں میں اور بالخصوص سکیورٹی فورسز کے اداروں، تنصیبات اور اعلیٰ افسران کو ٹارگٹ کر کے دہشت گردی کی وارداتوں میں کامیاب ہو رہے ہیں تو دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد ظاہر ہونے والے سکیورٹی لیپس پر اب تک قابو کیوں نہیں پایا جا سکا؟ کراچی، پشاور ائر پورٹ اور نیول ڈاکیارڈ کراچی میں دہشت گردی کی گھنائونی وارداتوں کے بعد فرقہ واریت کا تاثر دینے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا تسلسل اگر سکیورٹی لیپس کی چغلی کھا رہا ہے تو پھر آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے اور اسی بنیاد پر اطمینان کا اظہار کرنے کے معاملات بھی مشکوک ہو جاتے ہیں۔ اگر قوم کو عید کی خوشیاں بھی نصیب نہیں ہونے دی جا رہیں اور ملک میں ہر جگہ عملاً دہشت گردوں کا راج نظر آتا ہے تو یہ حکومتی گورننس ہی نہیں، ملک اور عوام کے تحفظ کے ذمہ دار ریاستی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے اس لئے اب محض رسمی مذمتوں پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اچھے اور بُرے طالبان کی سوچ ترک کر کے دہشت گردوں کے خلاف یکسوئی کے ساتھ بلا امتیاز اپریشن جاری رکھا جائے اور کسی قسم کی مصلحت آڑے نہ آنے دی جائے۔ عید الاضحی کے موقع پر قربان کئے جانے والے جانوروں کے خون کے علاوہ انسانی خون کا بھی ارزاں ہونا ہماری بدبختی کی علامت ہے اس لئے دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے تمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لے کر دہشت گردوں کی سرکوبی کے تمام ممکنہ اقدامات اٹھا لئے جائیں تاکہ ملک کے عوام کو مزید جانی و مالی نقصان سے بچایا جا سکے، بصورت دیگر ہم دہشت گردی کی بھینٹ بھی چڑھتے رہیں گے اور مسلم دشمن قوتوں کی جانب سے مسلم اُمہ پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے لیبل سے بھی خود کو نہیں بچا پائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن