فرزانہ چودھریfarzanach95@yahoo.com
”دارالکرشمہ“ لاوارث اور بے سہارا ذہنی مریضوں کی پناہ گاہ یوحنا آباد میں واقع ہے ےہاں انسانیت کے جذبے سے شرشار بے سہارا لوگوں کی بلا امتےازدیکھ بھال کی جاتی ہے یہاں پر تمام مذاہب کے بے آسرا لوگ اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ ان کی دن رات خدمت کے لئے چار سسٹرز ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں۔ ”دارالکرشمہ“ کی انچارج سسٹر اناماریہ ہیں جن کو اس ہاﺅس میں رہنے والے تمام لوگ امّاں جی کے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔ سسٹراناماریہ المعروف اماں جی کا تعلق مالٹا سے ہے۔ یہ ادارہ 97ءمیں مالٹا سے تعلق رکھنے والی لے مشننری مالےٹز مرےم نے قائم کیا تھا اُس وقت اس ہاﺅس میں صرف11 ذہنی مریض تھے جن میں چار مریض کراچی جیل سے بھی لائے گئے۔ مریم کے بعد اس ہاﺅس کی ذمہ داری امّاں جی کے سپرد کر دی گئی۔ اناماریہ 82ءسے پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ ”دارالکرشمہ“ کے لاوارث لوگ تہوار کیسے مناتے ہیں۔ یہ جاننے کے لئے ہم ریورنڈ شاہد پی معراج ڈین آف لاہور کتھیڈرل کے ہمراہ یوحنا آباد گئے جب ہم ”دارالکرشمہ“ میں پہنچے تو سسٹر ارشاد نے ہمےں خوش آمدےد کہا اور ہمیں اس ہاوس کے مکےنوں سے ملانے ان کے ہال میں لے گئیں۔ وہاں پر مردوں اور عورتوں کے الگ الگ ہال ہیں اور ان کی خدمت کے لئے چار سسٹرز مامور ہیں۔ سسٹراناماریہ المعروف اماں جی نے بتاےا” انسانیت کی خدمت کرنا مےرا مشن ہے۔ مجھے مرےم نے کہا سسٹرآپ اس کام کی ذمہ داری لو۔ میں نے اپنی سپیریئر کو بتایا انہوں نے مجھے اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس عطےہ دےنے والے لوگ نہیں ہےں۔پھر میں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس ہاوس کے لوگوں کی دےکھ بھال کی ذمہ داری لی۔ اس وقت گےارہ بے سہارا مریض تھے۔ اب عورتوں اور مردوں کا علیحدہ علیحدہ بلاک ہے ہمارے پاس 69 مرد و خواتےن ہیں۔ ہم رنگ ونسل اور مذاہب سے بالا تر ہو کر سب کو قبول کرتے ہیں ہمارے ہاﺅس میں مسلمان مریضوں کی تعداد زیادہ ہے جن میں عورتیں زیادہ اور مسلم مرد دس بارہ ہوں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ زیادہ تعداد ان لڑکیوں کی ہے جو شادی کے بعد ذہنی بیماری کا شکار ہوئیں۔ ہاوس مےں مرد سولہ سترہ ہیں جن میں ایک دو ہندو بھی ہیں۔ یہ بہت صبر اور محبت کا کام ہے ان میں بہت سے مریض کبھی کبھی جارحانہ ہو جاتے ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ہم ڈاکٹر کی ہدایات کے بعد ان کو صبح شام دوائی دیتے ہیں۔ ہم ان کو زنجیروں سے نہیں باندھتے بعض اوقات کچھ مریض اپنے کپڑے پھاڑ لیتے ہیں تب ایسے مریضوں کے تھوڑی دیر کے لئے ہاتھ باندھ دیتے ہیں اصل میں ہم انہیں زنجیروں میں باندھا برداشت نہیں کر سکتے ۔ یہاں چار سسٹرز 24 گھنٹے خدمات سرانجام دے رہی ہیں دو سسٹرز کی ڈیوٹی مردوں کے بلاک مےں اور دو کی عورتوں کے بلاک مےں ہوتی ہے۔ اس موقع پر ریورنڈ شاہد پی معراج ڈین آف لاہور کتھیڈرل نے” دارالکرشمہ“ کے لوگوں کو عےد کی خوشےوں کی مبارک باد دےتے ہوئے مٹھائی اور عےدی پےش کی تو سسٹر ارشاد نے بتایا” ہم تمام تہوار جوش وجذبہ کے ساتھ مناتے ہےں ۔ ہاوس کے تمام لوگوںکو نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ عیدالفطر پر ناشتے میں سویاں اور عیدالاضحیٰ پر گوشت اور نان کا ناشتے دیتے ہیں۔ دوپہر کے کھانے میں بھی گوشت کی ڈشیز ےعنی قورمہ، پلاﺅ اور بریانی وغیرہ ہوتی ہے۔ شام چار بجے آئس کریم ےا مےٹھے جو پسند کرےں وہ دےتے ہےں اور اسی طرح رات کا کھانا بھی پرتکلف ہوتا ہے۔ میوزک شوق سے سنتے ہیں سب خوش ہو کر گانوں پرجھومتے ہیں۔ گیمز کھیلتے ہیں ۔ تہواروں پر ہاﺅس کی سجاوٹ کی جاتی ہے۔ مسلمان مریض رمضان میں روزے رکھتے ہیں۔ اور شام کو افطاری کے وقت خود کہتے ہمارے لئے سموسے پکوڑے بھی منگواﺅ ہم نے افطاری کرنی ہے۔ آج عید بقر ہے صبع اٹھتے ہی انہوں نے نئے کپڑے پہن لےے۔ چاند رات کو خواتین نے چوڑیوں ‘ اور مہندی لگانے کی فرمائش کی جس کا انتظام کیا گےا۔ اپنی پسند کی چوڑیاں، کپڑے اور جےولری دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہیں۔ ان کے چہرے کی چمک دمک سے آپ ان کی خوشی کا اندازہ لگاسکتے ہےں۔ کرسمس‘ ایسٹر ہو تو تب بھی یہاں سب کے لئے نئے کپڑے خرےدے جاتے ہیں خصوصی کھانے تےار کےے جاتے ہےں ۔ ہندوﺅں مریضوں کے تہوار بھی اسی جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔“سسٹر زرینہ نے بتاےا” ان سب کے لئے سردیوں اور گرمیوں کے کپڑے بنوائے جاتے ہیں ان کے لئے جوتے خریدتے ہیں۔ ضرورت کی ہرچیز ہم ان کو مہیا کرتے ہےں۔ عید کے دن ان مریضوں کے لواحقین میں سے کبھی کبھار کوئی آجاتا ہے۔ عام طور پر عید کے دن ان سے ملنے کوئی نہیں آتا۔ ہم ان کے ساتھ عید مناتے ہیں۔ خواتےن عےد پر بناﺅ سنگھار کرتی ہیں ۔ ہم ان کے ساتھ گاتے بجاتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں تاکہ ان کو لاوارث اور تنہا ہونے کا احساس نہ ہو۔ مسلمان مرےض تیار ہوکرعید کی نماز پڑھتے ہیں اور اےک دوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں۔ ہم ان کی عید تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کو اپنے مذہبی تہواروں اور ان کی آمد کے بارے میں پتہ ہوتا ہے۔ ان کو عید کی تاریخیں یاد ہوتی ہیں، اس عید کے بعد اگلی عید کونسی ہے اور کب ہوگی‘یہ مریض کسی کسی وقت زیادہ ہائپر ہوجاتے ہیں اصل میں وہ ہوم سک ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے گھر والوں کو یاد کرتے ہیں۔“ سسٹر ارشاد نے بتاےا” ایک عورت ہمارے پاس ایسی آئی‘ اس کی لومیرج تھی شادی کے چند سال کے بعد اس کا شوہر ہماری ہاو¿س سے کچھ دور گندے نالے کے پاس چھوڑ کر چلاگیاکہ میں تمہارے بچے لے کرآتا ہوں۔ اس کے پاس کپڑوں کا ایک بیگ بھی تھا۔ بہت خوبصورت عورت ہے ہم چرچ جارہی تھےں ہم نے اس کو دیکھا اور ہمارے پوچھنے پر اس نے ساری بات بتائی، ہم اس کو ہاو¿س میں لے آئے۔ اس کا شوہرآج تک نہےںآےا اور نہ اس کے بچے آئے ہےں۔ یہ عورت اسلام آباد سسٹر کے سکول میں ٹیچر تھی۔ عید تہواروں پر ان کے لئے جو کپڑے لاتے ہیں اگر ان کو پسند نہیں آئےں تو وہ پھینک دیتے ہےں کہ ہم نے یہ کپڑے نہیں پہننے۔ ہم ان کی پسند نا پسند کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں۔ “سسٹر اماں جی نے کہا ” ہم ان کو مصروف رکھنے کے لئے باورچی خانے اور ہال کی صفائی کرواتے ہےں، ان کو فارغ نہیں چھوڑتے ہیں وہ کرکٹ اور فٹ بال بھی کھیلتے ہیں۔ ان کی ورزش کے لئے مشین بھی ہیں وہ ورزش بھی کرتے ہیں۔ اس ہاﺅس کے اخراجات ہم اپنی مدد آپ کے تحت ہی پورا کرتے ہیں ۔میں اپنے ملک مالٹا گئی۔ وہاں کے لوگوں کو بتایا وہاں سے بھی پیسے اکٹھے کر کے لائی، یہاں پاکستان سے بھی کبھی کوئی پانچ سو یا تین سو عطیہ دے دیتا ہے۔ ہمارے لئے قطرہ قطرہ ہی سمندر ہے۔ جب ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا اپنے سپیریئرز سے مانگتے ہیں وہ روم سے مانگتے ہےں۔ روم باقاعدگی سے مدد اس لےے نہیں کرتا وہ کہتے ہیں پاکستانیوں کو اپنے لوگوں کی مدد کرنی چاہےے ۔ اس ہاﺅس کا ایک مہینہ کا خرچہ تقرےباً چھ سے سات لاکھ روپے ہے۔٭٭٭٭