سیاسی حکمرانی یا مارشل لائی؟

Oct 06, 2015

ڈاکٹر محمد بشیر گورایا

گزشتہ برس مئی سے اب تک ملک بھر کے ٹی وی چینلز کے کرنٹ آفیئرز کے پروگراموں اور اخبارات کے بہت سے کالموں سے ناظرین اور قارئین کو اس طرح کا احساس دلایا جا رہا ہے جیسے ملک میں سیاسی حکومت کی ضرورت نہیں یا بہ الفاظ دگر ملک کی سیاسی حکومت ختم ہونیوالی ہے اور مارشل لاء کا نفاذ ہوا ہی چاہتا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا دو تین برس پہلے ایک سابق جنرل کی جانب سے اس طرح کی خبر شائع ہوئی تھی کہ سیاست دان خود فوج کو مارشل لاء کے نفاذ کی دعوت دیتے ہیں۔سیلاب آجائیں، زلزلے آجائیں یا ملک میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہو جائے سیاسی حکومتیں خود ان مسائل پر کنٹرول پانے کی بجائے فوج کو مدد کیلئے طلب کرنا اشد ضروری سمجھتی ہیں۔علاوہ ازیں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بیٹھے چند سیاسی رہنما کرپشن وغیرہ کی وجہ سے گرفتاریوں سے بچائو کیلئے کبھی کبھی مارشل لاء کے نفاذ کی ضرورت بارے بیانات دیتے رہتے ہیں۔فوج کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنے عیوب پر پردے ڈالنے کیلئے ہمارے شر پسند لوگ اس لیے بھی ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں تاکہ سیاسی حکومت اطمینان اور توجہ سے ترقیاتی منصوبے مکمل نہ کر سکے اور ملک میں ڈویلپمنٹ کے کام نہ ہوں۔ اپوزیشن کی سیاسی پارٹیاں اور کرپٹ لوگ شور کریں کہ سیاسی حکومت عوام کی خدمت اور ملک میں ڈویلپمنٹ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے بدیں وجہ افواج ِ پاکستان کو ملک کی باگ ڈورسنبھالنے کیلئے جواز پیدا ہو سکے۔ جب مارشل لاء کا نفاذ ہو جاتا ہے توسیاسی رہنما اور کارکن مارشل لاء کیخلاف کام کرنا شروع کردیتے ہیں اگرچہ چند ماہ تک مارشل لاء والوں کا ساتھ دیتے ہیں لیکن بعد میں قومی سلامتی کے ادارے کیخلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ کسی سابقہ حکومت سے کرنے کی بجائے خود اس حکومت کی تقریباً اڑھائی سالہ کارکردگی پر جب نگاہ ڈالتے ہیں تو الیکشن مہم میں انکے وعدوں اور حکومت بنانے کے بعد زمینی حقائق دیکھتے ہوئے نظر آتا ہے اس حکومت نے ملک بھر میں بہت سے منصوبہ جات کا نہ صرف اعلان کر رکھا ہے بلکہ کئی منصوبوں پر کام جاری اور چند شارٹ ٹرم کے منصوبہ جات مکمل بھی ہو چکے ہیں لیکن انرجی کرائسز پر کنٹرول حاصل نہ کر سکنے کے علاوہ ملکی آمدن صرف ٹیکسوں پر مبنی ہے۔ چھابے اور ریڑھی بانوں کو بھی ٹیکس کی زد میںلایا گیا ہے۔ مگر کوئی نئی انڈسٹری نہیں لگائی گئی نہ ہی زراعت پر اس طرح توجہ دی گئی ہے کہ ملک کی زرعی پیداوار میں اس قدر اضافہ ہو سکے کہ ہماری پراڈکٹس کی ایکسپورٹ میں خاطرخواہ اضافہ ہو جائے۔ سابقہ برسوں میں جب سرتاج عزیز وزیر خزانہ تھے تو انہوں نے بجلی کے بلوں اور یوٹیلیٹی کے دیگر بلوں پر سرچارج ٹیکس لگا دیا تھاجس میں آج تک مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔اُن دِنوں کالم نویس اور دانشور اُن کو سرتاج عزیز کی بجائے سرچارج عزیز کہا کرتے تھے لیکن اسحاق ڈار صاحب لندن کے مستقل شہری اور کارباری ہونے کی وجہ سے پاکستان کے غریبوں اور مڈل طبقہ کے لوگوں کو عینک اتار کر نہیں دیکھ پاتے۔ غریب لوگوں پربھی آئے دن نئے نئے ٹیکسوں کا بوجھ اس طرح ڈال رہے ہیں کہ لوگ زندگی سے تنگ آکر خود کشیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں کے ذرائع آمدن یو کے والے لوگوں والے نہیں، نہ ہی ہمارا ملک ویلفیئر کنٹری ہے کہ تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات مفت میں مہیا ہوتی ہیں۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کے خواتین و حضرات کو گزارہ الائونس نہیں ملتا۔ حکومت میں شامل لوگوں اور حکومتی پارٹی کے سیاسی کارکنوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے ۔اشیائے خوردنی دن بدن مہنگی ہو رہی ہیں ذخیرہ اندوز من مانی کمائی کر رہے ہیں۔کاربار تباہی کی جانب جا رہے ہیں ۔ رشوت اور سفارش بلکہ رشوت دینے کیلئے سفارش دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔
لوگ کروڑوں روپے خرچ کر کے الیکشن جیتنے کی کوشش کرتے ہیں اگر الیکشن جیت جاتے ہیں تو اپنی انوسٹمنٹ کو دوگنا چار گنا کرتے ہیں۔ آج سے ایسے الیکشنوں پر پابندی لگ جائے اور عوام الناس صرف ایماندار اور ملک کے خیر خواہوں کو خود منتخب کریں تو آپ دیکھیں گے عوام کے ایسے صحیح منتخب نمائندے کس طرح ملکی ترقی اور عوام الناس کیلئے بھلائی کے منصوبہ جات بناتے ہیں۔رشوت اور سفارش کا قلع قمع ہوتا ہے یا نہیں۔ ملک کی سیاست عوامی سیاست کا روپ دھارتی ہے یا نہیں۔ملکی اداروں اور ملکی سیاست میں ٹھہرائو (Stabillity)آتا ہے یا نہیں۔
اسی طرح آج تک جن بڑے بڑے لوگوں نے قرض معاف کروائے ہیں اگر قرض کی وہ تمام رقوم واپس لے کر حکومت اُس سے ہر صوبہ میں کارخانے لگا دے اور ایسی پراڈکٹس کے منافع سے ایک ایسا فنڈ قائم کر دے کہ غریب لوگوں کے کم از کم یوٹیلیٹی بلزکی ہی اس فنڈ سے ادائیگی ہو جایا کرے تو عوام ایسا اقدام اٹھانے والی حکومت کے اہل کاروں کیلئے دعا گو رہیں گے یا نہیں؟ ہر سال یا چھ ماہ کے بعد 20یا 25ارب کے بڑے بڑے لوگوں کے قرض معاف ہو جاتے ہیں۔ روز ِ حشر یہ بڑے لوگ اور قرض معاف کرنیوالے اللہ تعالیٰ کے حضور کیا جواب دینگے؟غریب آدمی ایک دو ماہ بجلی کا بل ادا نہیں کر سکتا تو اسکے گھر سے بجلی کا میٹر محکمہ والے اتار کر لے جاتے ہیں لیکن بڑے بڑے لوگ کھربوں روپے بینکوں سے قرض لیکر حکومت سے معاف کروا لیتے ہیں۔کیا انصاف کا یہی تقاضہ ہے؟ وہ تو قرض لیتے ہی معاف کر وا لینے کی نیت سے ہیں۔ کبھی کسی غریب کا چار پانچ سو روپے کا یوٹیلیٹی بل معاف ہوا ہے؟ اگر مذکورہ بالا تجاویز پر عمل کیا جائے تو بے روزگاری اور غربت پر کنٹرول حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
آج کے دور میںاستحکام ِ پاکستان کے ساتھ قومی اداروں کا استحکام بھی اشد ضروری ہے۔ ملک میں انڈسٹری کی ترقی سے ہمارے عوام کی خوشحالی وابستہ ہے۔ صنعتی ترقی سے بے روزگار لوگوںکو روزگار ملے اور ملکی آمدنی میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔ پھر یہی انڈسٹریل پراڈکٹس ایکسپورٹ کی جائیں اور تمام سیاست دان تنقید برائے تنقید کا رویہ چھوڑ کر تنقید برائے اصلاح کا رویہ اختیار کریں۔ علاوہ ازیں حکومت کی اچھی کارکردگی کی تعریف کریں تو دیکھتے ہیں ملکی پرابلم کیوںختم نہیں ہوتے۔ خلافت راشدہ والا سیاسی نظام قائم کرنے کیلئے اللہ کا خوف دل و دماغ پر سوار ہونا چاہئے۔ سیاست دان اور احتساب کرنے والے خود کو احتساب کیلئے ہمہ وقت تیار رکھیں تو نظام میں بہتری آسکتی ہے ورنہ نہیں۔

مزیدخبریں