ائرچیف مصحف میر کی شہادت کا واقعہ خراب طیارے کی وجہ سے پیش آیا : آڈٹ حکام

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ صباح نیوز) آڈٹ حکام کی جانب سے پیر کو پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ائرچیف مارشل مصحف علی میر اور 10 افسران کی شہادت کا واقعہ خراب طیارے کی وجہ سے پیش آیا، جس طیارے میں مصحف علی میر شہید ہوئے وہ خراب تھا۔ شہادت ناکارہ طیارے کے باعث ہوئی کیونکہ ان کیلئے 8 کروڑ 30 لاکھ روپے کی لاگت سے خریدا گیا ائرکرافٹ ناکارہ اور سرپلس تھا جو اپنی اڑان پوری کرچکا تھا جبکہ ائرفورس حکام نے کہا کہ حادثہ پائلٹ کی غلطی اور موسم کی خرابی کے باعث پیش آیا۔ رانا افضال کی زیرصدارت پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں آڈٹ حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس طیارے کو پہلے پی آئی اے کو دینے کی کوشش کی گئی لیکن قومی ائر لائن نے چیکنگ کے بعد انکار کردیا اسے پھر پاکستان نیوی کو دینے کی کوشش کی گئی اسکے بھی انکار پر جہاز پاکستان ائر فورس کودیدیا گیا۔ 1993ءمیں ایف 27 فوکر طیارے کا معائنہ کیا گیا اور خطرناک قراردیا گیا۔ ڈی جی پرچیز سے کہا گیا کہ اس جہاز کو فارغ کر دیں۔ 1996ءمیں طیارہ ائر فورس کو دیدیا گیا جو ائر چیف مصحف علی میر کے زیر استعمال رہا۔ صباح نیوز کے مطابق کمیٹی نے وزارت دفاعی پیداوار سے اس واقعہ پر تین ماہ میں جامع اور تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ کمیٹی کے کنوینئر میاں عبدالمنان نے کہا ہے کہ غفلت کے باعث فضائیہ کا ایک سربراہ گنوا بیٹھے وزارت دفاعی پیداوار کے سیکریٹری سمیت دیگر اعلی حکام اس واقعہ کے حوالے سے محمود خان اچکزئی سمیت بعض دوسرے ارکان کے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ اجلاس میں پیش آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مرحوم ایئر چیف مارشل مصحف علی میر جس جہاز میں سوار تھے یہ خراب تھا 1991ءمیں خراب جہاز ہی خریدا گیا تھا اور خرابی کے بارے میں بتایا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ پی آئی اے اور نیوی نے اسے لینے سے انکار کر دیا تھا رپورٹ میں بتایا گیا کہ بنیادی طور پر یہ جہاز آرمی چیف کےلئے خریدا گیا تھا معائنہ کیا گیا تو جہاز کو ناکارہ قرار دے کر گراﺅنڈ کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا تاہم معائنہ کاروں کی رپورٹ پر عملدرآمد کرنے کے بجائے اسے 1996ءمیں فضائیہ کے سپرد کر دیا گیا اور فضائیہ کے سربراہ کے زیر استعمال 2003ءمیں یہ ناقص طیارہ تباہی کا باعث بن گیا۔ اجلاس میں فضائیہ کا موقف تھا کہ حادثہ پائلٹ کی غفلت اور خراب موسم کی وجہ سے پیش آیا تاہم انہوں نے وزارت کے موقف کو رد کر دیا۔ فضائیہ کے حکام نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ 90ءکی دہائی کے آغاز میں پریسلر ترمیم کی وجہ سے پاکستان کو مہنگے داموں دفاعی سازو سامان خریدنا پڑا تھا۔ آئی این پی کے مطابق ائرفورس کے ائرکموڈور شہزاد نے بتایا کہ 90ءکی دہائی میں تین چار ایسی ڈیلز کی گئیں جس کے تحت ہم سکریپ جہاز اٹھاتے تھے اور پھر اس کو اڑنے کے قابل بناتے تھے یہ تجربہ بھی اسی بنیاد پر کیا گیا 1990ءسے2000ءتک ایسی ڈیلز کیں جس کے تحت ہم نے ایسے جہاز جو نہ اڑ سکتے تھے وہ اٹھائے اور پھر ریکور کیے یہ ڈیل آرمی کی تھی اور پھر پی اے ایف کو دیا گیا یہ طیارہ 10سال ا±ڑا، کنونئیر کمیٹی نے پوچھا کہ جہازوں کی خریداری کا فیصلہ کون کرتا ہے جس پر ائیرفورس کے حکام نے بتایاکہ یہ طیارہ میری ٹائم سیکورٹی سے لیاگیا تھا اور خریداری کا تعین ائیر فورس خود کرتی ہے۔
آڈٹ حکام

ای پیپر دی نیشن