بھارت منفی رویہ چھوڑ کر پاکستان کی تجویز کا مثبت جواب دے‘ کشمیر پر مذاکرات کئے جائیں : سینٹ کی متفقہ قراردادیں

Oct 06, 2015

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی ) سینٹ نے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب اور اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں پہلی بار فلسطینی ریاست کا پرچم لہرانے پر دو الگ الگ خیرمقدمی قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کرلیں۔ جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب کے بارے میں قرارداد قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے جبکہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پر فلسطینی پرچم لہرانے بارے قرارداد (ق) لیگ کے جنرل سیکرٹری سینیٹر مشاہد حسین سید نے ایوان میں پیش کی۔ ارکان نے دونوں قراردادوں کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ قبل ازیں راجہ ظفرالحق کی قواعد و ضوابط معطل کرکے قراردادیں پیش کرنے کی تحریک کی بھی منظوری ایوان سے لی گئی۔ راجہ ظفر الحق کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان وزیراعظم نوازشریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 30 ستمبر کو کی گئی تقریر اور اس میں بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کی ضرورت اور مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کےلئے چار نکاتی فارمولا پیش کرنے کا خیر مقدم کرتا ہے۔ حکومت نے اقوام متحدہ میں جو مسلمہ قومی موقف پیش کیا اس پر ایوان انکی ستائش کرتا ہے۔ ایوان سمجھتا ہے کہ توقع ہے بھارتی قیادت بھی روایتی ہٹ دھرمی ترک کرکے معاملہ فہمی پر مبنی موقف اختیار کرے گی۔ وزیراعظم کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش قبول کرکے بات چیت کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنے پر آمادگی ظاہر کرے گی۔ مشاہد حسین سید کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان بالا اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں فلسطینی پرچم لہرانے کے اقدام کو سراہتا ہے ، یہ فلسطینیوں کی تحریک آزادی اور ان کی حمایت کرنے والوں کی ایک بڑی فتح ہے۔ یہ ایوان فلسطینی عوام کو بھی 1947ءسے لے کر آج تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے پر انہیں سلام پیش کرتا ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے جائز کاز کی حمایت کی اس لئے فلسطین کے پرچم کی اقوام متحدہ میں پرچم کشائی کے اقدام کا بھرپور خیر مقدم کرتا ہے۔ ایوان اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کی سرزمین پر حق حکمرانی فراہم کیے جانے تک ان کی تحریک اور جدوجہد کی حمایت کرتے رہیں گے۔ اجلاس میں بھارت سے مذاکرات کیلئے وزیراعظم نوازشریف کے 4 نکاتی فارمولے کی توثیق کیلئے خیرمقدمی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سینٹ وزیراعظم کے 4 نکاتی فارمولے کی حمایت کرتا ہے بھارت منفی رویہ چھوڑ کر پاکستان کی تجویز کا مثبت جواب دے۔ بھارت سے تصفیہ طلب امور خصوصاً مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کئے جائیں۔ سینٹ نے کثرت رائے سے واپڈا ہاﺅس لاہور سے اسلام آباد منتقل کرنے کی قرارداد کی منظوری بھی دیدی۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر باز محمد خان نے قرارداد پیش کی کہ اس حقیقت سے باخبر ہوتے ہوئے واپڈا ہاﺅس 1950ءمیں لاہور میں تعمیر کیا گیا تھا جب یہ شہر مغربی پاکستان کا دارالحکومت تھا جو اب ایک صوبے یعنی پنجاب کا دارالحکومت ہے۔ یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ واپڈا ہاﺅس کو لاہور سے اسلام آباد منتقل کردیا جائے تاکہ دیگر صوبوں میں احساس محرومی کا خاتمہ کیا جائے‘ وفاق مضبوط ہو اور تمام صوبوں کے عوام کو یکساں سہولت دی جائے۔ حکومت نے قرارداد کی مخالفت کی جس پر سینیٹر باز محمد خان نے کہا کہ واپڈا ہیڈ کوارٹرز کی طرح کئی اداروں کو پنجاب سے اسلام آباد منتقل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبوں کے احساس محرومی کا خاتمہ ہو۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے قرارداد کی حمایت کی۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ لاہور میں اس کا رہنا ٹھیک نہیں‘ یہ معاملہ کمیٹی کو بھیجنے کی تائید کرتا ہوں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے بھی قرارداد کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم پر من و عن عمل کیا جائے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ اداروں کو صوبوں میں تقسیم کیا جائے نہ کہ ہیڈ کوارٹرز کو اسلام آباد میں لایا جائے۔ یہ معاملہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔ سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ واپڈا کا لاہور میں ہیڈ آفس خلاف قانون ہے اسے اسلام آباد منتقل کیا جائے۔ سینیٹر سردار اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ کسی صوبے کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہئے۔ چیئرمین نے قرارداد پر رائے شماری کرایئ‘ ایوان نے اکثریت رائے سے قرارداد کی منظوری دیدی۔ وزیر تجارت خرم دستگیر نے نشاندہی کی کہ قرارداد میں کچھ غلطیاں ہیں انہیں درست کرلیا جائے جس کی چیئرمین نے منظوری دیدی۔ چیئرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے میثاق جمہوریت پر عملدرآمد خصوصاً تمام صوبوں سے مساوی تعداد پر مشتمل ججوں کی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لانے سے متعلق قرارداد پر مزید بحث موخر کرتے ہوئے اس معاملے پر مزید غور کےلئے وقت دیا ہے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر کریم احمد خواجہ کی طرف سے میثاق جمہوریت پر عملدرآمد اور آئینی امور نمٹانے کیلئے آئینی عدالت کے قیام سے متعلق جاری قرارداد پر بحث کرتے ہوئے سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی ضرورت آج پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرگئی ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف اور سابق وزیراعظم محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے مابین یہ میثاق جمہوریت طے پایا تھا لیکن چونکہ پارلیمنٹ میں اب بہت سی جماعتیں ہیں جن میں پی ٹی آئی بھی شامل ہوئی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ دیگر جماعتیں بھی چارٹر آف ڈیموکریسی پر آئیں اور اس کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہوگا۔ اس معاملے پر ابھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ‘ وہ وزیراعظم محمد نواز شریف سے بھی اس معاملے پر بات کریں گے تاکہ اس سلسلے کو بڑھایا جاسکے۔ اعتزاز احسن نے قائد ایوان کے جواب کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ میں راجہ ظفر الحق کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس معاملے پر اس اہم مسئلے کو اٹھایا ہے۔ قائد ایوان نے وقت طلب کیا ہے تاکہ مزید اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے جس پر اپوزیشن کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ جس طرح دو جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت طے ہوا تھا اسے مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے آئینی کورٹس کے اختیارات کے تعین اور دیگر معاملات اور سپریم جوڈیشری کے اختیارات کے حوالے سے بھی ایوان کو اعتماد میں لینے اور اس پر مزید بحث کی ضرورت پر زور دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث محمد خان نیازی نے سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ کی قرارداد پر بیان دیتے ہوئے جیسے ہی ایوان میں کالا باغ کی بات چھیڑی تو نیشنل پارٹی ‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کے ارکان نے احتجاج شروع کردیا جس پر چیئرمین سینیٹ نے سینیٹر محمد خان نیازی کو کالا باغ ڈیم کا ایشو نہ چھیڑنے کا کہہ کر خاموش کروا دیا۔ لیکن نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی پارٹی کے کارکن ہاﺅس سے احتجاجاً واک آﺅٹ کرگئے جس پر چیئرمین سینٹ نے وفاقی وزیر اقبال ظفر جھگڑا کو منانے کیلئے بھیج دیا۔ بعد ازاں وہ تمام پارٹیوں کو ایوان میں منا کر لے آئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے پیش کئی گئی تین تحاریک سینٹ میں منظور کرلی گئیں، تین ایسے بلوں کو جو پہلے ہی سینٹ میں منظور ہو چکے تھے لیکن قومی اسمبلی سے 90روز کے اندر پاس نہ ہو سکے انہیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے لئے بھیج دیا گیا۔ ان بلوں میں نجکاری کمیشن کا ترمیم شدہ بل، غیرت کے نام پر قتل کا ترمیم شدہ بل اور پی پی پی کی سابق سینیٹر صغریٰ امام کی جانب سے اس سال مارچ میں سینیٹ سے پاس شدہ اینٹی ریپ قوانین کا بل شامل ہیں۔ چیئرمین سینٹ کی صدارت میں بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں 120 ویں اجلاس کے ایجنڈا پر غور کیا گیا۔


سینٹ/ قراردادیں

مزیدخبریں