ترقی و خوشحالی

آج کل ترقی اور خوشحالی کا تذکرہ بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ حکمران پارٹی کے مطابق ملک ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے اور اس کے نتیجے میں خوشحالی کی منازل طے کر رہا ہے جبکہ Opposition اس کے بالکل برعکس باتیں کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قطعاً کوئی ترقی نہ ہو رہی ہے، یہ سب اشتہاری باتیں ہیں اور اقتصادی طور پر ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ہے اور ملک میں غربت کا دور دورہ ہے اور آدھی سے زیادہ مخلوق خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ہمارے ایک دوست ہر سال بجٹ کے اعلان پر ہر ملاقاتی سے، حکومتی پارٹی کا ہو چاہے مخالف پارٹی سے، دو سوال ہمیشہ دہراتے ہیں -(1) کسی ایسی چیز کا نام بتائیں جو بجٹ کی وجہ سے سستی ہو گئی ہو اور -(2) کسی ایسی چیز کا نام بتائیں جو بجٹ کے نتیجے میں مہنگی نہ ہوئی ہو، دونوں کا جواب نفی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تو پھر وہ دوست کہتے ہیں کہ جناب ایسے بجٹ کا کیا فائدہ جس میں ہر شے مہنگی ہو گئی ہو اور پھر سال میں چھوٹے چھوٹے بجٹ آتے رہتے ہیں اور ہر چیز مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی جاتی ہے۔ مورخہ 8 ستمبر 2016ء کے اخبار Business Recorder میں aptma یعنی (All Pakistan Mills Association) کی طرف سے مختلف رنگوں میں اشتہار چھپا ہے جس کی شہ سرخی مندرجہذیل ہے۔ "Everday one textile mill is closing down-exports 2013-2014 US $ 25.110 billion vs. exports 2015-2016 US $ 20.802 million" جس کا مطلب ہے کہ برآمدات ¼ یعنی 25 فیصد کم ہو گئی ہیں اور اس کے نیچے urgent remedial measure are needed کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس اشتہار کا لب لباب یہ ہے کہ ہر روز ایک پاکستان مل بند ہو رہی ہے اور 2015-2016ء میں ¼ exports حد تک کم ہو گئی ہے یعنی ملکی آمدنی میں 25% کی کمی ہو گئی ہے۔ اگلے دن ایک اخباری خبر کے مطابق یہ بتایا گیا کہ غیرملکی سرمایہ کاری یعنی foreign investment میں بھی اس سے بھی زیادہ کمی آئی ہے۔ بقول opoosition زرِمبادلہ یعنی foreign exchange reserves کا تمام تر انحصار بیرون ملک سے پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم پر ہے اس میں حکومت کی کوئی کمانی نہ ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس وقت foreign exchange reserve انتہائی بلند سطح پر ہیں مگر ایسا ہونے کے باوجود اس کا کریڈٹ گورنمنٹ کو ہرگز نہیں جاتا۔ ہم اکنامکس میں ماسٹر کرنے کی وجہ سے لوگوں سے بحث کرتے ہوئے گورنمنٹ کے حق میں مختلف دلیلیں دیتے رہتے ہیں کہ deficit budget یعنی بجٹ کے خسارے میں کمی کی کوشش کی جارہی ہے۔ GDP بڑھ گئی ہے اور Stock exchange بلند ترین سطح پر جارہی ہے مگر مخالفین اکنامکس کی details میں جائے بغیر ایک ہی سوال پر مبصر رہتے ہیں کہ یہ بتائیں جناب کہ عام آدمی کی مالی حالت پہلے سے بہتر ہوئی ہے یا بدتر۔ جواب ہے بدتر۔ اس کی وجہ یہ کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے نافذ کردہ ٹیکس پر ٹیکس کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی کم ہو گئی ہے اور خرچہ زیادہ ہو گیا ہے جب بھی کوئی شخص دکان پر چیز خریدنے جاتا ہے تو ہر چیز کے ریٹ پہلے سے زیادہ پا کر پریشان ہو جاتا ہے مگر یہ سب چیزیں اس کے بس میں نہیں رہتیں۔ 8 ستمبر 2016ء ہی کے روزنامہ نوائے وقت میں ایک خبر کے مطابق ’’گھی کا کنستر 20 روپے مہنگا، کالی مرچ کی قیمت میں 200 روپے کا اضافہ، زیرہ 50 روپے، آلو بخارہ 20 روپے مہنگے داموں فروخت‘‘ چند روز پہلے کے اخبار میں لکھا تھا کہ محترمہ مریم نواز کے ٹویٹ کے مطابق جناب وزیراعظم نے آٹے کے 20 کلو کے تھیلے کی قیمت میں 20 روپے کے اضافہ کا نوٹس لے کر اس کو واپس کروا دیا ہے مگر ساتھ ہی فلور ملز ایسوسی ایشن کے ایک بیان میں اس کی صاف تردید کی گئی تھی۔ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی آئے دن مہنگائی کا ذکر اخباروں میں آتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں مندرجہ ذیل قسم کی خبریں اردو اور انگریزی اخباروں میں دیکھی جاتی ہیں مثلاً 8 ستمبر 2016ء کے روزنامہ Business recorder میں صفحہ 5 پر ایک خبر "Shehbaz for prompt action against profiteers" دکھائی دیتی ہے جس کا مطلب ہے کہ مہنگائی بے تحاشا ہے لیکن حکومت کی طرف سے ایسی خبریں بے معنی اور بے اثر ہوتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے دکانداروں کی پکڑ دھکڑ سے قیمتیں کم نہیں ہوا کرتیں اس کے لئے مناسب پالیسی ضروری ہے جو ہمارے ہاں دستیاب نہیں بلکہ ہمارے ملک میں ایک بھکاری بھی ہر چیز پر 17% جنرل سیل ٹیکس (GST) ادا کرتا ہے اور پاکستان کا امیر ترین آدمی بھی وہی ٹیکس ادا کرتا ہے جس کے نتیجے میں لامحالہ غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور یہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔ بجلی کی عدم دستیابی جس کو عرف عام میں لوڈشیڈنگ کہتے ہیں ایک وبال جان کی حیثیت سے جاری ہے لیکن ظلم یہ ہے کہ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ بجلی کی کمی دور کی جارہی ہے اور یہ خبر بھی آئے دن اخباروں کی زینت بنتی ہے کہ 2 روپے 37 پیسے یونٹ بجلی کم کی جارہی ہے جبکہ بجلی کے بلوں میں ہر مہینہ رقم زیادہ ہوتی ہے جس کا راقم بھی شکار ہے اور اس وجہ سے سخت اذیت میں مبتلا ہے کیونکہ گھر اور دفتر دونوں جگہ کے بلوں میں زیادتی ہو رہی ہے۔ Opposition کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ قرضے سے بنائی گئی سڑکوں کو ترقی نہیں کہہ سکتے، یہ ترقی کی کسی definition پر پوری نہیں اترتی اور خوشحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چونکہ مہنگائی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی ہونے کی وجہ سے 100 روپے کا نوٹ 50 روپے کا رہ گیا ہے۔ پاکستانی شہری ایک بل ادا کرتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے اور اسی طرح دوسرا بل ادا کرتا ہے تو تیسرا آجاتا ہے۔ اسی طرح سارا مہینہ روتے دھوتے بلوں کی ادائیگی میں گزر جاتا ہے اور بجلی کے دفتروں میں غریب عورتیں اور بوڑھے جس طرح ہاتھوں میں ناجائز اور زائد بل لے کر آہ و بکا کر رہے ہوتے ہیں دیکھے نہیں جاتے۔ ہماری درخواست ہے کہ حکمران طبقہ ایسی جگہوں پر ضرور جائے تاکہ اس کو پتہ چلے کہ پاکستان کا عام شہری کس طرح زندگی گزار رہا ہے اور وہ کتنا خوشحال ہے اور حکومت کو کن الفاظ سے یاد کرتا ہے اور موجودہ حکمران بجلی پوری کرنے کے وعدے کر کے آئے اور آہستہ آہستہ اب اس کو 2018ء تک لے گئے (حکمرانی کا آخری سال) ہیں۔ لوگ بچارے بے بس ہیں کیا کریں اپنی روٹی روزی کا بندوبست کس طرح کریں جو تمام تر کوششوں کے باوجود پوری نہیں ہوتی یا پھر حالات کے خلاف واویلا کریں، تعلیم کا میدان دیکھیں تو حالت ابتر اور اگر صحت کی طرف دیکھنے کی کوشش کریں تو الامان و الحفیظ کسی عام آدمی کے لئے کچھ نہیں رہا سوائے دھکے پریشانی اور دکھ درد کے۔ لگتا ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے معنی بدل گئے ہیں، مہربان دوستوں کی تجویز ہے کہ ترقی اور خوشحالی کا مفہوم معلوم کرنے کے لئے عام شہریوں کے انٹرویو کئے جائیں اور حکمرانوں کو ٹی وی پر سنائے جائیں اور پھر وہ خود ہی انصاف کریں کہ ترقی اور خوشحالی کس کو کہتے ہیں اور یہ کہاں نظر آتی ہے۔ اگر کسی opposition لیڈر کے ساتھ لگ کر لوگ اصل حقائے لے کر میدان میں آئیں تو حکمران یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اس طرح ترقی اور خوشحالی کا راستہ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جناب عام آدمی کے لئے ترقی اور خوشحالی کہاں ہے یہ صرف امرائ، جاگیردار، کاروباری، سیاستدان اور ان کے زیرسایہ لوٹ مار کرنے والے اعلیٰ افسران کے ہاں ملے گی ورنہ عام آدمی تو غربت و مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور کوئی اس کی مدد کو نہیں آرہا، اب تو لوگ اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں اللہ کرے ترقی اور خوشحالی تو دور کی بات ہے صرف مہنگائی تھوڑی کم ہو جائے اور عام آدمی کا آسانی سے گزارہ ہونے لگے جو موجودہ حالات میں تو ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ موجودہ نظام میں Public welfare (عوامی بہبود) کا کوئی Concept نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ تمام تجزیہ نگار اور ماہرین اقتصادیات کی تحریروں کا نچوڑ یہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن