بھولئیے نہیں، ہر مسئلے کا حل موجود ہے…!

بہت سن رکھا تھا کہ موصوف کمال شے ہیں۔ انوکھی باتیں کرتے ہیں، میرا دل تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا مگر میرے پیارے دوست علامہ صاحب نے بے حد اصرار کیا توایک رات ہم موصوف سے اذن ملاقات لے کر ان کے علم خانے پر حاضر ہوگئے۔ راہ و رسم کی باتوں کو بھی موصوف نے زیادہ اہمیت نہ دی اور ڈائریکٹ چوتھے گیر میں اپنی معلومات بھری عالمانہ گفتگو کا آغاز کر دیا۔ بڑی مشکل سے ہم نے وقفہ سوالات پیدا کیا اور پہلے ذاتی نوعیت کے کچھ سوال داغ دیئے جن میں موصوف کی جائے نفسیاتی کی تبدیلی کی وجوہات وغیرہ بھی پوچھ لیں، دراصل موصوف پیشہ کے اعتبار سے لیکچرار تھے اور علاقہ بھرمیں ’’پروفیسر‘‘ کے نام سے مشہور تھے اور وابستگی بھی نجی ادارے ہی سے تھی۔ جو کہ ابھی ابھی تبدیل بھی ہوا تھا۔ تونئی تعیناتی کا تذکرہ کیا ہوا موصوف نے فرمایا کہ ہمارے ڈائریکٹر صاحبان نے ملک کے اعلیٰ ترین مدرسین میں سے پرنسپل کا انتخاب کیا ہے اور خود مجھ کو دو سو اڑتیس لوگوں میں سے منتخب کیا گیا ہے ظاہر ہے ہم اس بات کے بعد ایک طرف تو اس ادارہ کے اعلیٰ معیار انتخاب کے قائل ہوگئے اور دوسری طرف پروفیسر صاحب کی علیمیت اور تدریسی رتبہ کی بلندی کا اقرار بھی کرنا پڑا اور دل میں یہ خیال بھی گزرا کہ شاید موصوف کو یہ شک نہ ہو کہ ہم بھی کسی دوست کیلئے بطور لیکچرار بھرتی کروانے کی سفارش لے کر آئے ہیں تواپنے ادارہ کے اس کڑے طریقہ انتخاب کو بیان کر کے موصوف نے اپنی طرف سے اس خطرہ کا سدباب کیا ہو، فیر وقفہ سوالات پر موصوف پہلے بھی جبراً لا لے گئے تھے لہذا فوراً ہی اس سیشن کو بند کر دیا اور واپس اپنے علمی لیکچر پر آ گئے اب جو بات تاریخ سے شروع ہوئی جناب نے آچاریہ چانکیہ کو ٹیکسلا کی بجائے کٹاس یونیورسٹی کا پروفیسر بنا دیا اور مہاتما بدھ کو آپ کے شاگردوں میں داخل کرا دیا ہم دل میں بہت طلملائے اور تصیح کیلئے بھی سٹ پٹائے مگر کہاں؟ موصوف کی چرب زبانی اور گفتگو کی برق رفتاری ہونے سے ہماری دال نہ گلنے دی، خیر دل میں خیال مضبوط ہوگیا کہ یہ بھی صاحب ویسے ہی نکلیں گے جیسے اکثرہمارے ساتھ ہوتا ہے کہ بہت ذوق و شوق لے کر جاتے ہیں اور آگے سے کچا نکلتا ہے جس کے دم پر چناب پار نہیں کیا جاسکتا سودل پر پتھر رکھ کر واپس لوٹ آتے ہیں اور سوہنی مرحومہ کے نقش قدم پر کبھی بھی نہیں چلتے یہی سلامت ہیں اب تک خیر موصوف نے اسی طرح تاریخ کی دھجیاں بکھیریں اور پھرسائنس پر آگئے اور نیوٹن کا سیب آئن سٹائن کو کھلادیا ہمارے قلمی شکوک نے پھر سے تعین کا روپ لینا چاہا تو ہم نے دل کو تسلی دی کہ تاریخ و سائنس موصوف کا مضمون نہ ہیں لہذا ماضی کی گنجائش بنتی ہے بہرحال ہمہ جہتی شخصیت بننے کے خبط میں موصوف نے شاعری، مذہب اور تصوف کی بھی کافی ٹانگ کھینچی مگر ہم معافی پر معافی دیتے گئے آخر کار موصوف اپنے مضمون تدریس یعنی ’’اردو‘‘ پر آگئے جس میں پی ایچ ڈی کر لینے کا دعویٰ بھی موصوف کا موجود ہے تو اردو افسانہ نگاروں اور ادیبوں کی کیا ہستی، شعراء میں ذوق و مومن غالب تک آپ کا پانی بھرتے نظر آئے۔ حتیٰ کہ ان بزرگوں کے بعض کلام کی موصوف نے اصلاح تک فرما دی اور پھر آگئے ادب کی بڑی شخصیات کی ذاتیات پر اور جوش و خروش سے واقعات سناتے ہوئے ایک جگہ گویا ہوئے کہ اب مجھے یہ کنفرم نہیں ہے کہ بیٹی کے بیٹے کو پوتا کہتے ہیں یا نواسہ۔ بئی اب تو حد ہو چکی تھی اور ہم اپنی شریف النفسی کے باوجود ان کی جاری بات ادھوری چھوڑکر اجازت لے آئے۔ راستہ بھر ہم ان بچوں کے مستقبل کے تباہ ہونے پر کف افسوس ملتے رہے جو موصوف کے شاگرد ہیں انہیں کا غم کیا کم تھا جو ہمیں یہ یاد آگیا کہ بڑی رعایت بھی برتیں تو سو میں سے نوے مدرسین کا یہی حال ہے اور پھر ہم اپنی قوم کے جوانوں پرگلا کرتے ہیں کہ وہ شاہین کیوں نہیں بنتے اور ان کے ٹال و برکہاں گئے ؟ ظاہر ہی ہے کہ ہم شاہین بچوں کی تربیت پر گرگس معمورکریں گے تویقیناً وہ ہنس رہیں گے نہ کوے اور ساتھ ہم یہ بھی گاتے پھریں گے کہ…؎
شاہین کا جہاں اور گرگس کا جہاں اور
اور یہ بھی سچ ہے کہ ہماری قوم جسے اکثر اہل نظرلوگ زیادتی کرتے ہوئے بے ہنگم ہجوم کہہ جاتے ہیں بہرحال ہم لوگ جو بھی ہیں مگراساتذہ علما اور قائدین سے بے پناہ متاثرہوتے ہیں اور ان ہستیوں کے اقوال وافعال کا اپنی زندگیوں پر گہرا اثرلیتے ہیں جی ہاں… اور اساتذہ کرام کی اعلیٰ علمی حالت صورت حال پیرائے میں بیان کی جاچکی ہے اور ہمارے علمائے کرام کی آج بھی وہی حالت ہے جو صدیوں پہلے ہوا کرتی تھی چندسال قبل ہماری روایت ہلال کمیٹی میں شامل تمام علمائے کرام حلوہ کھا کھا کر بے ہوش ہوگئے تھے اور سب ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ کا حصہ بنے اور کچھ توicuکی زینت بھی بن گئے اور ستم بالائے ستم کہ تجس وناپاک کفار جس چنداماموں کو اپنے پیروں تلے کچل آئے وہی چاند ہمارے لئے آج تک معمہ بنارکھا ہے اور ہمارے …وغیرہ علوم علماء جن کے پاس زمینی آسمانی دینی وروحانی اور دنوی اورلادنی علوم ہیں وہ چنداماموں کے نکلنے نکلانے پر پورے ملک کو ماموں بناتے رہتے ہیں اور چاند کے چڑھتے چڑھانے کے چکرمیں پتہ نہیں کیا کیا چاند چڑھا دیتے ہیں ۔ پھر بھی چاند کی چاندنی کھلے یا نہ کھلے کئی قندیلیں بجھا دی جاتی ہیں کہ نور ہدایت کا جھانسہ دے کر ظلمت جہل نافذ کر دی جاتی ہے تبھی تو آج تک مسئلہ و موجود و عدم کے وجود و شہود جبر و قدر اور نور و خاک کے مباحث جوں کے توں پڑے ہیں اور قتوی و کفر و شرک و بدعت و الحاد و غلو و تکسیر بڑھ چڑھ کر داد وصول کر رہے ہیں اور ابھی تک بقول شاعر…؎
عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں
بہرحال ان سب کے بعد قائدین میں آج کل لیڈرز کہا جاتا ہے وہی بجتے ہیں کہ جن سے ہم لوگ نہیں بچ سکتے۔ پیچھے زیر بحث رہا تھا کہ ہم لوگ قوم ہیں یا ’’ہجوم‘‘ یا ’’بے ہنگم، ہجوم‘‘ تو اس مسئلے کا حل قائدین نے ہمیں عطا فرما دیا اور ہمیں ’’عوام‘‘ بنا دیا یہ الزام بالکل درست نہیں کہ ہمارے لیڈرز کو یہ تک پتا نہیں کہ عوام ہوتے ہیں با عوام ہوتی ہے جی ہاں ہمارے قائدین کو طاہر و فیروں اور مولویوں کی طرح جاہل تو نہیں ہیں ناں ان کو بخوبی پتا ہے کہ عوام ہوتے ہیں مگر ایک تو پوری دنیا میں حقوق نسواں کا شور مچ رہا ہے اور ہم تو زمانہ جانتا ہے کہ صرف بھول جاتے ہیں ورنہ ہر مسئلے کا حل ہے ہی ہمارے پاس ہیں جب بھی اہل کفر کچھ ایجاد کریں یا نئی بات کریں تو ہم فوراً اپنی کتب عالیہ کا جائزہ لیتے ہیں اور ہمیں فوراً پتا چل جاتا ہے کہ ہر اچھی بات یا ہر ترقی والا کام ان کافر لوگوںنے ہماری ہی درسگاہوں کے طاقچوں میں محفوظ کتابوں سے چرا کر کیا ہے بس ذرا ہمیں ڈیڑھ ہزار سال تک سمجھ نہیں آئی تو حقوق نسواں کا شور ڈالنے والے بھی سن لیں یہ سوچ بھی انہوں نے ہم سے ہی لی ہے اب ہمارے قائدین نے اس بات کا بھی منہ توڑ جواب دیا ہے کہ ہمیں یاد نہیں آ رہا کہ … بالکل تیار ہے اس لئے عورتوں کو حقوق تفویض کرنے کیلئے ہم نے سارے کے سارے عوام بھر کو ’’ہوتی‘‘ کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کے احترام کی ایسی مثال کہیں ہے تو دیکھائیے۔ اب کوئی کہتا پھرے تو کہتا پھرے کہ ہمارے وزیر اعظم زبانی تقریر نہیں کر سکتے اور انگلش سکرپٹ پڑھ سکتے ہیں مگر سمجھ نہیں سکتے یا ہمارے وزراء کو سورۃ اخلاص تک نہیں آتی یا غلط انگریزی میں پریس کانفرنس کرتے ہیں بئی ظاہری تعلیم ہی سب کچھ نہیں ہوتی اتنے ایماندار رہنما کسی قوم کو نہیں مل سکتے جنہوں نے غیر ملکوں سے لی گئی امداد کی پائی پائی کئی گنا سود سمیت ان ملکوں میں واپس پہنچا دی ہے۔ اب وہ قرضوں کی واپسی کی صورت میں نہ سہی ذاتی جائیدادوں، بنک اکائونٹس یا آف شور کمپنیز کی صورت میں ہی ہو کیا فرق پڑتا ہے؟ واپس تو کر دی ناں تمام رقم کئی گنا کر کے۔ ایسی ایمانداری اور اعلیٰ کردار کے حامل رہبر کسی عوام مذکر یا مونث کے پاس ہیں تو ہم سے بات کرے۔

شہزادہ علیم ----حرف ِ اولیٰ

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...