غم کا موسم ہے کیوں زباں ٹھہرے
میرے لبوں پر بھلا کیوں فغاں ٹھہرے
رہ خدا میں لٹایا حسینؓ نے کنبہ
حسینؓ ہی توسخاوت کا آسمان ٹھہرے
جو امتحان کہ رسولوں کو بھی ہوئے نہ نصیب
فقط حسینؓ کی خاطر وہ امتحان ٹھہرے
حسینؓ تیرے لہو نے بچا دیا اسلام
نشان جاں تیرے توحید کا نشاں ٹھہرے
حسینؓ تیری عزا کے دیئے جلائے ہیں
جہاں جہاں بھی گئے ہیں جہاں جہاں ٹھہرے
قلم تو مدحت مولا میں چل پڑا اک بار
کہاں ہیں منزلیں اس کی یہ اب کہاں ٹھہرے
سدا زباں پہ رہے جعفری حسینؓ کا نام
کہاں یہ تاب زباں میں کہ یہ بیاں ٹھہرے
ڈاکٹر مقصود جعفری
خدا کی راہ کے بامِ شہِ ہدیٰ کے چراغ
نظر نظر میں فروزاں ہیں کربلا کے چراغ
نشانِ قریہ ءباطل مٹاتے جاتے ہیں
حسین ؑجادہءحق میں جلا جلا کے چراغ
فضائے خانہ ء اسلام جن سے روشن ہے
نبی کے گھر کے دیے ہیں رہِ رضا کے چراغ
وہ آب ج±و کہ جو پہنچی نہیں تھی پیاسوں تک
جلاتی پھرتی ہے پلکوں پہ اب عزا کے چراغ
یہ ماہ و مہر حقیقت میں ہیں ا±نہی کا ن±ور
جلے ہوئے ہیں جو اب سامنے ہوا کے چراغ
ہوائے ظلمت ِشب کو خبر نہ تھی کہ یہ ہیں
علی ؑکے نورِ نظر اور مصطفےٰ کے چراغ
وہ شام آج بھی روتی ہے خون کے آنسو
کہ جس نے دشت میں دیکھے تھے مرتضیٰ ؑکے چراغ
حریمِ صبر و رضا کا دیا جلایا ہے
حسین ؑبنِ علی ؑنے بجھا بجھا کے چراغ
حسینؑ! کس کو پکاریں گے ہم تمہارے بعد
حسینؑ! کون جلائے گا اب وفا کے چراغ
( خورشیدربانی )