چیرمین نیب کی خدمت عالیہ میں

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہوس زرپرستی نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے کرپشن زوروں پر ہے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں جانتا ہوں پاکستان میںہر شعبہ زندگی میں کرپشن پائی جاتی ہے لیکن میں اس میں الجھنانہیں چاہتا کہیں ایسا نہ ہو کہ ملکی ترقی رک جائے ۔گویا ان کے نزدیک کرپشن سے صرف نظر کیا جا سکتا تھا۔یہی ان کا فلسفہ تھا جس کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی میں کرپشن نے پنجے گاڑھے ۔اس مال حرام کی لذت نے حق و انصاف کو پس پشت ڈال دیا۔محکمانہ کارکردگی بری طرح متاثرہوئی ۔فائیلوں کا پہیوں کے بغیر متحرک ہونا امر محال بنتا چلا گیا اور یوں حق دار ، متاثرین اور عام شہری بغیر رشوت کے اپنے حق سے محروم ہوتے چلے گئے۔
میں جناب کی خدمت میں فیصل آباد کے ایف ڈی اے سٹی کی غضب ناک کہانی پیش کرنا چاہتا ہوں۔یہ رہائشی منصوبہ 2005ءمیں شروع کیا گیا۔فیصل آباد موٹر وے سے داخل ہوتے ہی بایئں جانب 5ہزار رہائشی پلاٹس الاٹیوں کو الاٹ کیئے گئے ۔ہر الاٹی سے لاکھوں روپے وصول کیئے گئے لیکن 12سال گزرنے کے با وجود بجلی کی عدم فراہمی کا بہانہ کر کے پلاٹس کے قبضے الاٹیوں کو نہیں دیئے گئے ۔ایف ڈی اے سٹی کے ڈائریکٹر جنرل جو لاکھوں میں تنخواہ اور دیگر مراعات وصول کر رہے ہیں اور اس 12سال کے عرصے میں کتنے ڈائر یکٹر جنرل آئے اوراس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے چلے گئے لیکن وہ الاٹیوں کو پلاٹس دلوانے میں ناکام رہے ۔وہ خود تو ایف ڈی اے سٹی کے اربوں کے فنڈز سے تمام مراعات وصول کرتے رہے لیکن پڑوس میں فیسکو سے بجلی حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔کتنے عمر رسیدہ الاٹی تو راہی ملک عدم ہو چکے ان کے نصیب میں نہیں تھاکہ وہ اپنی چھت بنا کر اس عرصے میں سکھ کا سانس لیتے۔چونکہ پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانو ن ہے۔حکمران تو سرے محل اور لندن فلیٹس کے مزے لینے میں مصروف ہیں لہذا عام شہریوں کے مسائل کی طرف کون توجہ دے۔یہ اربوں مالیت کا رہائشی منصوبہ کسی مسیحا کا منتظر ہے جس کی نظر کرم سے شاید متاثرین کے دن پھر جایئں ۔اور انہیں اپنا حق مل جائے ۔
کئی درخواستیں وزیر اعلی پنجاب کی خدمت میں بھیجی گئیں نوائے وقت میں احمد کمال نظامی نے فیصل آباد سے تواتر سے کالم تحریر کیئے۔آپ کے محکمے کو بھی درخواستیں ارسال کی گئیں لیکن جناب خاو ر الیاس ایڈیشنل ڈائر یکٹر کی طرف سے جواب موصول ہوا کہ آپ کی درخواست پر مناسب غورو خوض کیا گیا لہذا یہ معاملہ نیب کے زمرے میں نہیں آتا ۔بحوالہ خط نمبرNAB-L No.1(38)HQ/CV/222&945/16 مورخہ 12ستمبر 2017ء
5 ہزار متاثرین جن کی محنت کی کمائی بارہ سال سے جو اربوں میں بنتی ہے اس کی تحقیق و تفتیش اگر نیب کے محکمے کے ذریعے نہیں ہو سکتی تو حضور والا یہ الاٹی کس کا دروازہ کھٹکھٹایئں ۔آپ سے گزارش ہے کہ ایف ڈی اے سٹی فیصل آباد کے مالی بے قاعدگی کے امور کو با ضا بطہ طورپر مناسب سطح پر تحقیق کے زمرے میں لایئں تاکہ متاثرین کو ان کا حق مل سکے ۔
ہمیں توقع ہے کہ نیب کی جانچ پڑتال سے ایف ڈی اے سٹی کی انتطامیہ خواب غفلت سے بیدار ہوگی اور فیسکو سے بجلی حا صل کرنے میں کامیاب ہو گی ۔کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ پرائیویٹ رہائشی سکیمیں جو بعد میں متعارف ہوئیں فیسکو سے بجلی لینے میں کامیاب ہو گئیںہیںاور ایف ڈی اے سٹی کے کرتا دھرتا 12سال میں امن کی بانسری بجاتے رہے ۔اور تا حال بجلی فراہم کرنے میں ناکام رہے ۔خدا جانے کب الاٹیوں کو اپنا حق میسر آئے گا۔
ع کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

ای پیپر دی نیشن